یورو فٹبال چیمپیئن شپ کے جوش و خروش سے بھرپور ماحول میں سوئٹزرلینڈ سے ایک ایسی آواز بلند ہوئی جس نے کھیلوں کی دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، وولکر ترک نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کھیلوں میں موجود صنفی تفریق کا خاتمہ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق
انہوں نے رکن ممالک اور عالمی کھیلوں کی تنظیموں کو یاد دلایا کہ آج بھی خواتین کھلاڑی مساوی مواقع، توجہ اور معاوضے سے محروم ہیں اور یہ صرف ناانصافی ہی نہیں بلکہ عالمی ترقی میں رکاوٹ بھی ہے۔
خواتین کے کھیل، کروڑوں کی توجہ مگر تنخواہ میں چند ہزار
سنہ 2023 کا خواتین فٹبال ورلڈ کپ تقریباً ایک ارب ناظرین نے دیکھا جو کوئی معمولی بات نہیں لیکن کیا ان کھلاڑیوں کو وہ احترام، وسائل اور معاوضہ ملا جس کی وہ حقدار تھیں؟ قطعاً نہیں۔
جہاں مرد کھلاڑیوں کی سالانہ اوسط آمدنی 18 لاکھ ڈالر تک پہنچتی ہے وہیں خواتین کھلاڑی صرف 24 ہزار ڈالر میں گزارا کرتی ہیں۔
چھوٹی ٹیموں میں تو یہ رقم 11 ہزار ڈالر سے بھی کم ہے اور یہ اس وقت جب وہی پسینہ، وہی محنت اور وہی جذبہ پیش کیا جاتا ہے۔
کام کے ساتھ کھیل کیونکہ کھیل سے پیٹ نہیں بھرتا
کم آمدنی کی وجہ سے خواتین کھلاڑیوں کو اکثر دوہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ انہیں روزگار بھی کرنا ہوتا ہے اور کھیل کی تربیت بھی جس کا براہِ راست اثر ان کی کارکردگی، صحت اور مواقع پر پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ زچگی کی چھٹیوں کا مناسب انتظام نہیں، ہراسانی کے خلاف کمزور تحفظ اور قائدانہ عہدوں پر نہ ہونے کے برابر نمائندگی۔
دنیا بھر میں 31 اہم کھیل تنظیموں میں سے صرف 3 کی خواتین سربراہ ہیں۔ یہ اعداد و شمار خود بول رہے ہیں۔
جن خواتین کی شناخت ایک سے زیادہ اقلیتی طبقات سے جُڑی ہو مثلاً جسمانی معذوری، یا نسلی اقلیتیں ان کے لیے تو کھیلوں کی دنیا مزید تنگ ہو جاتی ہے۔
مزید برآں سر پر اسکارف پہننے والی خواتین کھلاڑیوں کو بھی اکثر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیے: خواتین کے خلاف جنسی اور جسمانی تشدد، ایک سنگین عالمی بحران
وولکر ترک نے زور دیا کہ کھیلوں میں برابری کا جامع نظام بنایا جائے، خواتین کو مردوں کے مساوی معاوضہ دیا جائے، ہراسانی کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جائیں اور میڈیا خواتین کے کھیلوں کو وقار اور سنجیدگی سے کوریج دے۔
واضحرہےکہ میڈیا کوریج میں عدم توازن کا یہ عالم ہے کہ عالمی سطح پر کھیلوں کی میڈیا کوریج کا صرف 4 فیصد حصہ خواتین کے کھیلوں کو ملتا ہے۔
ان کے مطابق کھیل محض تفریح نہیں بلکہ سماجی تبدیلی کا آلہ ہیں۔ یہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ شفافیت، احترام اور برابری صرف نعرے نہیں، بلکہ عمل کا تقاضا کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پہلی مسلمان مدیرہ محمدی بیگم اور پہلی خاتون پائلٹ حجاب امتیاز علی کا آپس میں کیا رشتہ تھا؟
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم واقعی ایک منصفانہ معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اس میدان میں بھی تبدیلی لانی ہوگی جہاں سب کی نظریں جمی ہوتی ہیں یعنی کھیل کا میدان کیونکہ جب کھیل میں برابری ہوگی تو دنیا میں بھی برابری کا امکان بڑھے گا۔