بیٹیاں ہار گئیں، غیرت جیت گئی

پیر 21 جولائی 2025
author image

انعم ملک

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک کو نکاح نہ کرنے کی سزا ملی، دوسری کو نکاح کرنے کی۔ جرم؟ صرف یہ کہ انہوں نے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کی جسارت کی۔ 2025 کا سال پاکستان میں عورتوں، خاص طور پر بیٹیوں پر ہونے والے ظلم کی ایک اور لرزہ خیز داستان لے کر آیا ہے۔ بلوچستان کے ایک قبیلے میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے 24 سالہ شیتل اور 32 سالہ زرک کو قبائلی غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔ شیتل، جو قرآن پاک تھامے کھڑی تھی، یہ کہہ کر خود قتل گاہ کی جانب بڑھی کہ ’صرف گولی مارنے کی اجازت ہے‘۔ لیکن غیرت کے خود ساختہ محافظوں نے ایک نہیں، اسے 9گولیاں ماریں، اور زرک کو 18۔ ان کی واحد خطا یہ تھی کہ انہوں نے اپنے نکاح کا فیصلہ خود کیا تھا۔ آج بھی ان کی خاموشی، ان کے قاتلوں کی گرج دار آوازوں پر بھاری ہے۔

اسی سال جھنگ میں زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کی 19 سالہ طالبہ کنزہ کا کیس سامنے آیا، جسے گھر واپسی کے دوران اغوا کر لیا گیا۔ بس میں سوار، والدین سے رابطے میں، لیکن پھر اچانک لاپتہ۔ کچھ دیر بعد اس کی لاش سڑک کنارے ملی۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ اسے اس کے رشتہ دار طیب ادریس نے اغوا کیا، زیادتی کی، اور زہر دے کر قتل کر دیا۔ کیونکہ اس کے والدین نے رشتہ قبول نہیں کیا تھا۔ یعنی یہاں سزا انکار پر ملی۔ یہ 2واقعات اُس المناک سچ کو آشکار کرتے ہیں کہ عورت کا ہاں ہو یا ناں، معاشرے کو قابلِ قبول نہیں کیونکہ فیصلہ عورت کا ہوتا ہے۔

2025 میں اب تک درجنوں واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جہاں بیٹیوں کو محض اپنی زندگی کے فیصلے پر موت کی سزا دی گئی۔ راولپنڈی میں ایک باپ نے اپنی بیٹی کو ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے پر قتل کر دیا، کوئٹہ میں امریکی نژاد 15 سالہ لڑکی کو اس کے والد اور چچا نے گولی مار دی، اسلام آباد میں 17 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ان سب کے قاتل اپنے جرائم کو غیرت کے نام پر جائز قرار دیتے ہیں، اور بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ، ہمارا قانون، اور ہمارا ضمیر اکثر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔

قانونی سطح پر اگرچہ 2016 میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ترمیم کی گئی، اور معافی کا راستہ محدود ہوا، مگر عدالتی کارروائی کی رفتار اور پولیس کی سنجیدگی آج بھی اس ظلم کو روکنے میں ناکام ہے۔ UNFPA کے مطابق پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں سزا کی شرح صرف 2 فیصد ہے۔ اکثر اوقات FIR درج نہیں ہوتی، اور اگر ہو بھی جائے تو جرگے اور پنچایتوں کے ذریعے معاملات دبا دیے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے غیر قانونی جرگوں کو ناقابلِ قبول قرار دیا، لیکن یہ فیصلے کاغذوں سے باہر نہیں نکل پاتے۔

ثنا یوسف، کنزہ، قندیل بلوچ، شیتل، اور ان جیسی درجنوں بیٹیوں کا خون یہ پکار پکار کر پوچھتا ہے کہ انصاف کب ہوگا؟ انسانی حقوق کی تنظیمیں، جیسے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP)، ایمنسٹی انٹرنیشنل، نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (NCSW) اور دیگر، مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ ان جرائم کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔ NCSW نے ثنا یوسف کے قتل کے بعد سخت موقف اپنایا، مگر زمینی سطح پر خاطر خواہ تبدیلی نہیں آسکی۔

ہمیں بطور ریاست، سماج اور فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔ سب سے پہلے، غیرت کے نام پر قتل کو انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کے تحت لانا چاہیے تاکہ مقدمات میں سختی اور تیزی آئے۔ پولیس، وکلا اور ججز کی صنفی تربیت ناگزیر ہے تاکہ وہ متاثرہ خواتین کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اپنائیں۔ ہر ضلع میں خواتین کے لیے محفوظ ہیلپ سینٹرز، تیز رفتار عدالتیں، اور گواہوں کے تحفظ کے لیے نظام وضع کیا جائے۔ میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ عورتوں کے فیصلے کو بغاوت نہیں بلکہ ان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔

اور سب سے بڑھ کر، ہمیں اپنے گھروں، درسگاہوں، مساجد اور میڈیا کے ذریعے یہ پیغام دینا ہوگا کہ بیٹی کی عزت اُس کے فیصلے میں ہے، نہ کہ اس پر تھوپی گئی غیرت کی زنجیروں میں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ غیرت، اگر کسی کو قتل پر مجبور کرے، تو وہ غیرت نہیں، جرم ہے۔ جب تک ہر فرد، ہر ادارہ، اور ہر فیصلہ ساز اپنی آواز مظلوم کے حق میں بلند نہیں کرتا، شیتل، کنزہ، اور ثنا جیسے ناموں کی فہرست طویل تر ہوتی جائے گی اور ہم سب اس ظلم میں برابر کے شریک رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

1971 کی پاک بھارت جنگ: بہاریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم تاریخ کا سیاہ باب

آزادی رائے کو بھونکنے دو

بنگلہ دیش کا کولمبو سیکیورٹی کانکلیو میں علاقائی سلامتی کے عزم کا اعادہ

فلپائن میں سابق میئر ’ایلس گو‘ کو انسانی اسمگلنگ پر عمرقید

آج ورلڈ ہیلو ڈے، لوگ یہ دن کیوں منانا شروع ہوگئے؟

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟