اکیسویں صدی، جہاں ایک طرف انسان مریخ پر زندگی تلاش کر رہا ہے، مصنوعی ذہانت انسانوں کے فیصلے کررہی ہے، اور دنیا ’حقوقِ انسانی‘ کا علم بلند کیے بیٹھی ہے اور جن میں پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک بھی سہر فہرست ہیں مگر افسوس اسی صدی میں ایک عورت، ایک مرد، ایک نوجوان لڑکی، ایک بیٹی، ایک بہن یا ایک بیوی بغیر کسی ثبوت کے، صرف غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے۔
قتل کیے جانے والی خواتین اور مرد کو نہ کسی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے، نہ کوئی وکیل موجود ہوتا ہے، نہ صفائی کا موقع دیا جاتا ہے، بس الزام لگا، اور چند لوگوں نے مل کر ایک جرگہ بیٹھایا اور سزا سنا دی۔ غیرت مند ہونے کے دعوے دار، زندہ انسان کو ویران، میدان میں، گھر کی دہلیز پر، یا کسی سنسان جگہ پر لے جا کر یہ کہہ کر گولی مار دے گا، پتھر سے سنسار کردے گا، چاقو وار یا زندہ جلا دے گا، قتل میں ملوث افراد اس کی سانسیں لیتے ہوئے بھی کہتے ہوں گے کہ تو نے کیوں کسی کے ساتھ ہنسا؟ تو نے کیسے پسند کی شادی کرلی؟ تونے باپ، بھائی سے اختلاف کیوں کیا؟
یہ کیسی غیرت ہے جو محبت، اختیار، رائے اور آزادی کو جرم بناتی ہے؟ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں قاتل فخر سے سینہ تانتا ہے، اور مقتول کو بدنام کیا جاتا ہے؟
بلوچستان واقعہ
بلوچستان واقعے میں مارے جانے والے مرد اور خاتون ایسے ہی افراد میں شامل ہیں جن کی داستان کو اب جو چاہیے اور جیسے چاہیے رنگ دے دو کیونکہ ان کی سچائی بیان کرنے کے لیے کوئی دنیا میں موجود نہیں اور جیسے پتہ ہو بھی تو شاید بندوق کی گولی کے ڈر سے کوئی بتا نہ پائے کیونکہ اسے بھی ڈر ہے کہ غیرت کے نام پر پگڑیاں اونچی رکھنے والوں کے لیے انصاف خریدنا گولی مارنا معمول ہے۔ یہ واقع اگر سوشل میڈیا پر رپورٹ نہ ہوتا تو آج ان کے انصاف کے لیے اٹھنے والی آوازیں بھی سنائی نہ دیتیں۔
غیرت کے نام پر 2024 قتل کے واقعات
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے مطابق، 2024 میں مجموعی طور پر 405 افراد کو غیرت کے نام پر مار دیا گیا، جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔ خصوصاً بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں، یہ اعداد و شمار صرف رپورٹ کیے گئے کیسز کی نمائندگی کرتے ہیں؛ حقیقت میں غیرت کے نام پر ہونے والے واقعات ان سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں المیہ ہے کہ انصاف کے بجائے ’صلح یا معافی‘ کے ذریعے ملزمان کو بچایا جاتا ہے۔
کیا غیرت انسان کی جان سے زیادہ قیمتی ہے؟
غیرت اگر کردار کی حفاظت کا نام ہے، تو سب سے پہلے قاتل کو شرم آنی چاہیے کہ وہ انصاف، قانون، اور شریعت کے نام پر ظلم کر رہا ہے۔ غیرت اگر اخلاق کی علامت ہے، تو سب سے پہلے عورت کو جینے کا حق دو جو اسلام نے اسے دیا ہے اس سے بات کے لیے دلیل دو، اسے اپنی زندگی بسر کرنے کا اختیار دو۔ مگر افسوس پاکستان میں اب بھی اپنی پگڑی کو اونچا رکھنے کے لیے غیرت پر چلتے پھرتے، زندگی سے بھر پور انسان کو قتل کردیا جاتا ہے اور افسوس کہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔
ایک سوال، سب کے لیے آخر کب تک؟
کیا ہر نئی مقتولہ صرف ایک اور ’خبر‘ بن کر رہ جائے گی؟ کیا ہر غیرت کے نام پر مارا گیا نوجوان صرف ایک فیس بک پوسٹ تک محدود ہو جائے گا؟ کیا مرنے والا پر کوئی اور الزام لگا دیا جائے گا جس کی وضاحت بھی دینے کے لیے وہ اس دنیا میں موجود نہیں۔ کیا ہم تب تک خاموش رہیں گے جب تک یہ ظلم ہمارے دروازے پر دستک نہ دے؟ ہے کوئی پوچھنے والا؟ یا سوال پوچھنے والا بھی اب جرم بن جائے گا؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













