گوگل ڈیپ مائنڈ نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک نیا قدم اٹھاتے ہوئے اپنا جدید ترین ماڈل ’جیمنی 2.5 ڈیپ تھنک‘ متعارف کرا دیا ہے، جو کمپنی کی جانب سے پہلا ’ملٹی ایجنٹ‘ ماڈل قرار دیا جارہا ہے۔
یہ ماڈل سب سے پہلے گوگل آئی او 2025 میں منظرِ عام پر آیا اور اب گوگل کے 250 ڈالر ماہانہ کے ’الٹرا سبسکرپشن‘ صارفین کے لیے جیمنی ایپ پر دستیاب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ویڈیوز میں ڈھلتی تصویریں، گوگل نے پاکستان میں جدید اے آئی ٹولز ویو 3 اور فلو متعارف کرادیا
’جیمنی 2.5 ڈیپ تھنک‘ روایتی اے آئی ماڈلز سے مختلف طریقے سے کام کرتا ہے۔ اس ماڈل میں کسی بھی سوال کے جواب کے لیے ایک سے زیادہ اے آئی ایجنٹس بیک وقت کام کرتے ہیں، جو مختلف زاویوں سے سوچنے اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں۔
یہ ماڈل دیگر ماڈلز کے مقابلے میں زیادہ کمپیوٹیشنل وسائل استعمال کرتا ہے، مگر نتائج کہیں زیادہ درست اور مؤثر فراہم کرتا ہے۔
Try Deep Think in the @GeminiApp today if you’re a Google AI Ultra subscriber.
Deep Think can help people tackle problems that require creative problem solving, strategic planning and making improvements step-by-step like iterative development and design, scientific and… pic.twitter.com/YskJvIwIBL
— Google (@Google) August 1, 2025
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ماڈل کے ایک متبادل ورژن کی مدد سے گوگل نے حال ہی میں انٹرنیشنل میتھ اولمپياد میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ تاہم گوگل کا کہنا ہے کہ وہ ورژن چند منتخب ماہرین کو دیا جائے گا کیونکہ اسے کسی مسئلے پر غور و فکر کے لیے گھنٹوں درکار ہوتے ہیں، جبکہ دیگر ماڈلز چند منٹوں میں جواب دے دیتے ہیں۔
گوگل کا دعویٰ ہے کہ ’جیمنی 2.5 ڈیپ تھنک‘ نے کارکردگی کے اعتبار سے نہ صرف اوپن اے آئی اور گرُوک اے آئی جیسے ماڈلز کو پیچھے چھوڑا بلکہ مصنوعی ذہانت کے شعبے کے کئی بڑے کھلاڑیوں سے بہتر نتائج حاصل کیے۔
یہ بھی پڑھیں: پیچیدہ سوالات کے جوابات کے لیے گوگل کا نیا فیچر ’اے آئی موڈ‘ سرچز متعارف
یاد رہے کہ ایلون مسک کی کمپنی ایکس اے آئی (گروک 4 ہیوی) اور انتھروپک سمیت دیگر ادارے بھی ملٹی ایجنٹ ماڈلز پر تجربات کررہے ہیں، تاہم زیادہ لاگت اور مہنگے سبسکرپشن ماڈلز اس ٹیکنالوجی کی عوامی سطح پر رسائی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
گوگل نے عندیہ دیا ہے کہ وہ جلد ہی ’جیمنی 2.5 ڈیپ تھنک‘ کو جیمنی اے پی آئی کے ذریعے منتخب ڈویلپرز اور کاروباری اداروں کے لیے بھی فراہم کرے گا تاکہ وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ کی جاسکے۔