فلسطین باقی نہ رہا تو تسلیم کیا ہوگا؟ آسٹریلوی وزیر خارجہ کا انتباہ

منگل 5 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے خبردار کیا ہے کہ خطرہ ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے کچھ باقی ہی نہ بچے، ان کا یہ بیان اسرائیل کی غزہ میں جاری تباہ کن جنگ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔

آسٹریلوی نشریاتی ادارے اے بی سی کو منگل کی صبح دیے گئے انٹرویو میں آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ سے سڈنی میں منعقدہ ایک بڑے مظاہرے پر سوالات کیے گئے، جس میں اسرائیل کے خلاف اور غزہ پر حملوں کے خلاف سینکڑوں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

منتظمین کے مطابق، اتوار کے روز سڈنی ہاربر برج پر ہونے والے اس احتجاج میں 2 سے 3 لاکھ افراد شریک ہوئے، جبکہ پولیس نے ابتدائی طور پر 90 ہزار افراد کی شرکت کا اندازہ لگایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کے خلاف پوسٹ پر برطرف ہونیوالی آسٹریلوی خاتون صحافی نے مقدمہ جیت لیا

پینی وونگ نے کہا کہ آسٹریلوی حکومت مظاہرین کی امن اور جنگ بندی کی خواہش کی حمایت کرتی ہے، اور یہ بڑی تعداد میں شرکت آسٹریلوی عوام کی گہری تشویش اور خوف کی عکاسی کرتی ہے جو وہ غزہ میں پیدا ہونے والی ہولناک انسانی صورتحال، خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں اور امداد کی بندش کے مناظر دیکھ کر محسوس کر رہے ہیں۔

تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آسٹریلیا اسرائیل پر پابندیاں لگانے جیسے ٹھوس اقدامات پر غور کر رہا ہے تو پینی وونگ نے کہا کہ وہ پابندیوں کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کرتیں کیونکہ ان کا اثر اسی وقت زیادہ ہوتا ہے جب ان کی پیشگی اطلاع نہ دی جائے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آسٹریلیا پہلے ہی جون میں اسرائیلی حکومت کے دو دائیں بازو کے وزرا، اتمار بن گویر اور بیزلیل سموٹریچ، کے علاوہ بعض شدت پسند یہودی آبادکاروں پر پابندیاں عائد کرچکا ہے۔

مزید پڑھیں: سڈنی چرچ حملہ: اسرائیل مخالف پادری چاقو حملے میں معجزاتی طور پر کیسے بچ نکلے؟

آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ پینی وونگ کا کہنا تھا کہ جہاں تک تسلیم کرنے کا تعلق ہے، وہ گزشتہ ایک سال سے کہہ رہی ہیں کہ یہ اس بات کا سوال نہیں ہے کہ آیا ایسا ہوگا یا نہیں، بلکہ یہ سوال ہے کہ کب ہوگا۔

پینی وونگ کا یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اطلاعات کے مطابق آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز اتوار کے احتجاج کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے بات کرنے کے خواہاں ہیں، البانیز نے اس گفتگو میں ایک بار پھر 2 ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا۔

آسٹریلین سینٹر فار انٹرنیشنل جسٹس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر روان عرفات نے کہا کہ البانیز کو نیتن یاہو سے صرف اسرائیل اور آسٹریلیا کے درمیان اسلحے کی دو طرفہ تجارت ختم کرنے، نئی پابندیاں لگانے اور نیتن یاہو کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت بھیجنے پر بات کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل غزہ جنگ وسیع تر خطے میں پھیل سکتی ہے، اقوام متحدہ

روان عرفات نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ وزیر اعظم البانیز کو ایک ایسے شخص کو، جو جنگی جرائم کا ملزم ہے، کسی بھی صورت میں جواز فراہم نہیں کرنا چاہیے۔

اگرچہ وزیر اعظم البانیز اور وزیر خارجہ وونگ دونوں نے 2 ریاستی حل کی اہمیت پر زور دیا ہے، مگر آسٹریلیا نے اب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے وہ قدم نہیں اٹھایا جو فرانس اور کینیڈا جیسے ممالک اٹھا چکے ہیں۔

منگل کو وزیر اعظم البانیز اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تھا، جو نومبر 2023 کے بعد ان کے درمیان پہلی باضابطہ ریکارڈ شدہ گفتگو تھی۔

مزید پڑھیں:اسرائیل نے انروا پر پابندی عائد کردی، عالمی برادری کی مذمت

سڈنی میں ہونے والے مظاہرے پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا یہ حیرت کی بات نہیں کہ اتنے زیادہ آسٹریلوی شہری متاثر ہوئے اور وہ اپنی تشویش کا اظہار کرنا چاہتے تھے کہ لوگوں کو خوراک، پانی اور بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

تاہم وزیر اعظم البانیز کی لیبر پارٹی کے تحت قائم نیو ساؤتھ ویلز کی ریاستی حکومت نے اس مارچ کو سڈنی ہاربر برج سے گزرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

یہ احتجاج صرف اس وقت ممکن ہو سکا جب ریاستی سپریم کورٹ کی جج بیلِنڈا رِگ نے فیصلہ دیا کہ اس مقام پر مارچ کا مقصد یہ ہے کہ غزہ میں جاری ہولناک صورتحال اور اس کی شدت عالمی سطح پر فوری ردعمل کی متقاضی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شواہد اس مارچ کے لیے عوامی حمایت کی نشاندہی کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:’غزہ جنگ بند کروائیں‘، اسرائیل کے 600 سے زائد سابق سیکیورٹی عہدیداروں کا امریکی صدر ٹرمپ کو خط

اس مارچ میں ریاستی اور وفاقی سطح کے کئی لیبر وزرا نے بھی شرکت کی، جو وزیر اعظم البانیز کی جماعت کے اندر بڑھتی ہوئی تقسیم کی علامت ہے، ماہرین کے مطابق آسٹریلوی عوام اپنی حکومت کی صرف باتوں پر مشتمل پالیسی سے مایوس ہیں۔

لوگ صرف اسرائیل کے غزہ میں مظالم پر ہی نہیں، بلکہ آسٹریلوی حکومت کی خاموش شراکت داری پر بھی غصے میں ہیں، آسٹریلیا ایف 35 لڑاکا طیاروں کی عالمی سپلائی چین کا حصہ ہے، جو اسرائیل روزانہ غزہ پر استعمال کر رہا ہے اور اس طیارے میں استعمال ہونے والے کچھ پرزے ممکنہ طور پر آسٹریلیا سے فراہم کیے جا رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp