پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد جڑواں شہروں میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے مختلف شاہراہیں بلاک کردیں اور آج دوسرے دن بھی صورتحال بہت زیادہ مختلف نہیں۔
دونوں شہروں کا مرکزی نقطۂ اتصال فیض آباد انٹرچینج اور اس کے اطراف و جوانب میں صورتحال سب سے زیادہ کشیدہ رہی۔ فیض آباد پُل کے اوپر مظاہرین نے ٹائر جلا کر تمام اطراف سے آنے والی ٹریفک کا راستہ روک رکھا تھا جہاں بپھرے ہوئے مظاہرین کا رویہ خاصا پُرتشدد تھا اور وہ رکاوٹوں کو پار کرنے کی کوشش کرنے والے افراد کے ساتھ ناصرف شدید بدتمیزی کر رہے تھے بلکہ موٹرسائیکل اور گاڑیوں پر ڈنڈے بھی برسا رہے تھے۔
ایسے افراد جنہیں بہرصورت مری روڈ ہی سے سفر کرنا تھا ان لوگوں کے لیے کوئی اور چارہ نہیں تھا سو فیض آباد پُل کے اردگرد جہاں جس کو جگہ ملی وہیں گاڑی پارک کرکے رک گیا اور طوفان کے تھمنے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن موٹرسائیکل سوار چونکہ چھوٹی چھوٹی گلیوں سے بھی نکل جاتے ہیں اس لیے وہ رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنا سفر جاری و ساری رکھے ہوئے تھے لیکن اس ساری صورتحال میں ان لوگوں کو شدید مشکلات پیش آرہی تھیں جن کے ساتھ خواتین اور بچے تھے۔ افسوسناک بات یہ تھی کہ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا وجود نظر نہیں آیا۔
حمزہ کیمپ سے فائرنگ
فیض آباد سے تھوڑا آگے راولپنڈی کی مرکزی شاہراہ مری روڈ پر ایک اہم ادارے کا دفتر ہے جسے لوگ حمزہ کیمپ کے نام سے جانتے ہیں اور یہاں کی صورتحال سب سے زیادہ کشیدہ رہی جس کی وجہ تحریک انصاف کے کارکنان میں پایا جانے والا یہ تاثر تھا کہ عمران خان پر قائم مقدمات اور ان کی گرفتاری کے پیچھے اسی ادارے کا کردار زیادہ ہے۔ یہاں مظاہرین نے پولیس بیریئرز لگا کر مری روڈ اور اس کے متوازی چلنے والی سروس روڈ بھی بلاک کر رکھی تھی۔
مشتعل مظاہرین اس رکاوٹ کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والوں کو گالیاں دے رہے تھے اور ان کی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے۔ ساتھ یہ مظاہرین اس ادارے کے دفتر کے اندر پتھر بھی پھینک رہے تھے اور بعض مظاہرین کے ہاتھوں میں غلیلیں بھی تھیں جن سے وہ نشانے سادھ رہے تھے۔
یہاں کچھ عناصر ایسے تھے جو اپنی افتاد طبع اور فطری پُرتشدد رویوں کے باعث اس سرگرمی میں بروئے کار تھے وہیں کچھ ایسے بھی تھے جو خود کو نظریاتی طور پر اس بات پر قائل کرکے لائے تھے کہ ان کا یہ اقدام درست ہے۔ ’وہ تمہاری جنگ لڑ رہا ہے اور تم لوگوں کو کوئی غیرت نہیں‘، ایک احتجاجی مسافروں پر چلایا۔ دوسری طرف ایک سن رسیدہ خاتون وہیں سے عمران خان کو صلواتیں سناتے گزریں ’جب سے یہ آیا ہے لوگوں کی زندگی عذاب ہوگئی ہے‘۔
اسی اثنا میں حمزہ کیمپ کے اندر سے پہلا برسٹ فائر کیا گیا جس سے بھگدڑ مچ گئی اور لوگ پناہ کے لیے مختلف کونے کھدروں میں چھپ گئے۔ کچھ لوگوں نے موٹرسائیکلوں کی اوٹ لی تو کچھ قریبی گلیوں میں چھپ گئے جبکہ خواتین بچوں کو سینے سے لگا کر بھاگتی نظر آئیں۔ پھر ایک کے بعد ایک برسٹ فائر ہوتے چلے گئے لیکن حیران کن طور پر وہاں پھنسے ہوئے لوگوں نے اس موقعے کو غنیمت جانا اور رکاوٹیں ہٹا کر وہاں سے نکل گئے۔ پاکستانی عوام کو بم دھماکے اور گولیوں کی بوچھاڑ شاید اب اس قدر متاثر نہیں کرتی۔
کمیٹی چوک کی صورتحال
حمزہ کیمپ سے آگے کمیٹی چوک تک سارا راستہ صاف تھا، البتہ کمیٹی چوک سے مریڑ چوک تک آنسو گیس شیلنگ کی بُو ہوا میں رچی بسی تھی اور جگہ جگہ جلے ہوئے ٹائروں کی باقیات پڑی تھیں لیکن راستے کھلے تھے۔
جی ایچ کیو کے باہر کی صورتحال
مری روڈ کے آخری سرے پر واقع جی ایچ کیو کی عمارت میں مظاہرین کے داخلے کی کوشش اور اس کے بعد وہاں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد وہاں پنجاب پولیس کے دستے تعینات ہوچکے تھے۔
خواتین کے حالات
اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئیں۔ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو واپس گھر پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور جو خواتین سڑکوں پر تھیں ان کی حالت تو اور بھی زیادہ خراب تھی کیونکہ انہیں ان سب بُرے رویوں کا سامنا کرنا پڑا اور گھر پہنچنے میں بھی تاخیر ہوئی۔