زراعت فصلوں، مال مویشی اور جنگلات کا مجموعہ ہے، پاکستان نے حال ہی میں ایک ایسا سنگِ میل عبور کیا ہے جو مستقبل میں ملکی معیشت، خوراک کے تحفظ اور کسانوں کی فلاح میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پہلی ڈیجیٹل زرعی مردم شماری کے نتائج جاری کرتے ہوئے اسے ’ڈیٹا پر مبنی زرعی انقلاب کا نقطۂ آغاز‘ قرار دیا۔
یہ دعویٰ محض رسمی جملہ نہیں، بلکہ اس کے پسِ منظر میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے حاصل ہونے والی وہ معلومات ہیں جو پالیسی سازی، سرمایہ کاری اور پیداوار میں نیا باب کھول سکتی ہیں۔
یہ زراعت شماری اپنے دائرۂ کار اور طریقۂ کار دونوں اعتبار سے ماضی کی شماریات سے مختلف ہے۔ 2010 میں زیرِ کاشت زمین کا رقبہ 4 کروڑ 26 لاکھ ایکڑ تھا، جو اب بڑھ کر 5 کروڑ 28 لاکھ ایکڑ ہو چکا ہے۔
لیکن اس خوش آئند اضافے کے ساتھ ایک توجہ طلب حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ اوسط زرعی رقبہ 6.6 ایکڑ سے گھٹ کر 5.1 ایکڑ رہ گیا ہے۔ اس سے زمین کی ملکیت میں مسلسل تقسیم اور بڑھتی آبادی کا دباؤ واضح ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل زراعت شماری کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ملک کے تمام صوبوں پہاڑی اور دور دراز علاقوں میں بیک وقت یہ عمل مکمل ہوا ہزاروں تربیت یافتہ اہلکاروں نے GPS سے لیس آلات کے ذریعے زمین کے استعمال آبپاشی، فصلوں، مویشیوں، زرعی مشینری اور کسانوں کی معاشی و سماجی صورت حال کا ڈیٹا جمع کیا۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مویشیوں کی آبادی 25 کروڑ 13 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جن میں گائے، بھینسیں، بکریاں، بھیڑیں، اونٹ اور گدھے شامل ہیں۔
فصلوں کے زیرِ کاشت رقبے کا تجزیہ صوبائی سطح پر پالیسی سازی میں مدد فراہم کر سکتا ہے، مثلاً پنجاب میں گندم کی کاشت 41.5 فیصد، جبکہ سندھ میں 40 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار سبسڈی، قرضہ اسکیموں جدید بیجوں اور موسمیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ فصلوں کے فروغ میں براہِ راست مددگار ثابت ہوں گے۔
ڈیجیٹل ڈیٹا پورٹل اس عمل کو مزید شفاف اور بروقت بنا دے گا، جہاں پالیسی ساز اور کاشتکار دونوں بر وقت معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں گے، یہی وہ پہلو ہے جو روایتی زراعت شماری میں ہمیشہ کمزور رہا۔
روایتی زراعت شماری سے حکومت کو زمین کے استعمال فصلوں کی پیداوار کسانوں کی ضروریات اور وسائل کی تقسیم کے بارے میں عمومی نقشہ ملتا ہے، اس سے خوراک کے تحفظ سرمایہ کاری اور عالمی اداروں سے تکنیکی و مالی معاونت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ڈیجیٹل زراعت شماری نے اس عمل میں رفتار درستی اور بر وقت معلومات کا اضافہ کر دیا ہے۔ جی آئی ایس میپنگ مصنوعی ذہانت پر مبنی تجزیے اور کسانوں تک براہِ راست رسائی جیسے اقدامات پالیسی سازی کو نہ صرف تیز بلکہ ہدف کے عین مطابق بناتے ہیں۔
زراعت کا ایک اہم شعبہ ذیلی شعبہ جنگلات اس ڈیجیٹل شماریات میں عدم توجہ کا مظہر رہا، پاکستان میں جنگلات کا رقبہ عالمی معیار 25 فیصد کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ اقوام متحدہ کا کم از کم ہدف خشک/نیم خشک ممالک کے لیے 12 فیصد ہے، حالانکہ پاکستان ایسے ممالک میں شمار نہیں ہوتا مگر ہمارا موجودہ رقبہ اس حد سے بھی کم 4 سے 5 فیصد ہے۔
جنگلات صرف لکڑی یا ایندھن کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ بارش کے نظام مٹی کے تحفظ آبی گزرگاہوں کے تحفظ اور فضا سے کاربن جذب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان جیسے موسمیاتی خطرات سے دوچار ملک میں جہاں گلیشیئر پگھلنے بارشوں کے رجحان میں تغیر اور سیلابوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جنگلات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ مزید یہ کہ لکڑی، شہد، جڑی بوٹیاں اور دیگر جنگلی مصنوعات دیہی معیشت کا حصہ ہوتی ہیں۔
جنگلات کے رقبے اقسام اور سالانہ کمی یا اضافے کا ڈیٹا ریموٹ سینسنگ ڈرون سرویلنس اور جی آئی ایس میپنگ کے ذریعے حاصل شدہ تفصیلات کو بھی حکومتی سطح پر نمایاں کرنا چاہیے، تاکہ ماحولیاتی تحفظ جنگلات کی کٹائی روکنے نئے جنگلات لگانے اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مؤثر اقدامات کے لیے ٹھوس ڈیٹا دستیاب ہو۔
مزید یہ کہ گرین اکنامی عالمی کاربن کریڈٹ مارکیٹ میں تسلیم شدہ شمولیت ممکن ہو سکے، جس سے پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔