’پولیس نے مجھے بغیر کسی ایف آئی آر کے گرفتار کیا اور کئی دن حوالات میں رکھا‘۔
یہ الفاظ ہیں میانوالی کے صحافی جیند خان کے، جو 9 مئی 2023 کے بعد شروع ہونے والے حکومتی کریک ڈاؤن میں نشانہ بنے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ایک گرفتاری نے نہ صرف ان کی زندگی بلکہ پورے خاندان کو خوف کی ایسی فضا میں دھکیل دیا، جہاں ہر خبر لکھنے سے پہلے خطرے کا حساب لگانا پڑتا ہے۔
میانوالی: پس منظر اور حالات
میانوالی صوبہ پنجاب کے شمال مغرب میں واقع ایک سرحدی ضلع ہے، جس کی آبادی لگ بھگ 17 لاکھ 98 ہزار 268 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کی 3 تحصیلیں — میانوالی، عیسیٰ خیل اور پپلاں — 4 صوبائی اور 2 قومی اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہیں۔
گزشتہ 2 عام انتخابات میں تمام حلقوں سے پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ یہاں پی ٹی آئی کے علاوہ کسی جماعت کا ووٹ بینک زیادہ مضبوط نہیں، البتہ چند بااثر سیاسی خاندان — جیسے روکھڑی خاندان، نواب آف کالا باغ، شادی خیل اور جوئیہ — اپنا اثر رکھتے ہیں، لیکن وہ بھی پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔
ضلع میں نیازی پٹھان اکثریت میں ہیں، جبکہ اعوان اور سادات بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ سماجی لحاظ سے میانوالی پنجاب کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں خواتین کی تعلیم اور مواقع میں شدید عدم مساوات ہے۔
خواتین زیادہ تر گھریلو امور تک محدود ہیں جبکہ مرد زیادہ تر زراعت یا فورسز سے جڑی ملازمتوں میں ہیں۔ امن و امان مجموعی طور پر بہتر ہے، لیکن خیبر پختونخوا کی سرحدی پٹی میں چیک پوسٹ حملوں کے واقعات ہوئے ہیں۔
9 مئی 2023 کے بعد کا ماحول
اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس سے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے، جن میں حساس اداروں کے دفاتر اور سرکاری املاک پر حملے شامل تھے۔
میانوالی میں بھی مظاہرین نے آئی ایس آئی کے دفاتر اور پاکستان ایئر فورس بیس کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد کثیر تعداد میں مقدمات درج ہوئے اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔
جیند خان، جو دی انڈیپینڈنٹ اردو کے ساتھ منسلک ہیں، بتاتے ہیں کہ “اس وقت پولیس نے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو پکڑنا شروع کر دیا۔ مجھے اگلے ہی روز گرفتار کیا گیا، چند دن حبسِ بے جا میں رکھا اور پھر چھوڑ دیا گیا۔”
اس واقعے نے ان کے پورے خاندان کو خوف زدہ کر دیا۔ سب نے مشورہ دیا کہ وہ ایسی رپورٹنگ سے گریز کریں جو پولیس گردی کا باعث بن سکتی ہے۔ ’صحافت چھوڑنا ممکن نہیں، یہی ذریعہ معاش ہے، لیکن اب میں صرف کم خطرے والی رپورٹنگ کرتا ہوں تاکہ زندہ رہ سکوں‘۔
رانا زاہد شریف کا کیس
بھکر کی تحصیل کلور کوٹ سے تعلق رکھنے والے رانا زاہد شریف دھوم نیوز کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس سے پہلے خبریں، نوائے وقت اور اوصاف جیسے اخبارات میں کام کر چکے ہیں۔
23 اپریل 2024 کو ایک مقامی سرکاری اسپتال پر تنقیدی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر ان کے خلاف تھانہ کلور کوٹ میں ایف آئی آر درج ہوئی۔
اسی دن انہیں گرفتار کر کے 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر رکھا گیا، پھر جیل بھیج دیا گیا۔ 4 مئی 2024 کو ضمانت ملی۔ مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 409 اور 505 کے ساتھ ٹیلی گراف ایکٹ کی دفعات بھی شامل تھیں۔ 3 ماہ بعد سول جج کلور کوٹ کی عدالت نے انہیں باعزت بری کر دیا۔
رانا زاہد کے مطابق ’یہ ایف آئی آر من گھڑت تھی اور مقصد آزاد صحافت کو روکنا تھا۔ اس دوران میری تذلیل کی گئی، چادر و چار دیواری کا تقدس پامال ہوا، ہتھکڑیاں لگا کر شہر میں گھمایا گیا۔ اس سے میری پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور ذہنی سکون شدید متاثر ہوا‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ اب تک ان کے خلاف 3 مزید ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں، جن میں سے 2 پیکا ایکٹ کے تحت ہیں۔ ’میرا 9 سالہ بیٹا تک مجھ سے کہتا ہے کہ بابا آپ نہ لکھا کریں، ورنہ پولیس آ جائے گی‘۔
پولیس کی طرف سے موقف اسسٹنٹ سب انسپکٹر عنایت اللہ نے دیا کہ ’ہم نے ڈاکٹر کلیم انور شاہ کی درخواست پر قانونی کارروائی کی، درست یا غلط کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہوتا ہے‘۔ لیکن رانا زاہد اسے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان مقدمات سے نہ صرف وہ بلکہ ان کا پورا خاندان اور قریبی دوست بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے۔ تقریباً 90 فیصد رشتہ داروں نے انہیں صحافت چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ ’پہلے میں ان لوگوں کے مسائل اجاگر کرتا تھا جو حکومتی عتاب کا شکار تھے، مگر کچھ عرصہ کے لیے خاموش ہو گیا‘۔
بعد میں ایک خاتون کے حق میں آواز بلند کرنے پر ان پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 351 اے اور پیکا کی دفعات لگائی گئیں۔ ’اب ہم مجبور ہیں کہ خوشامدی صحافت کریں تاکہ محفوظ رہ سکیں‘۔
اعداد و شمار اور ماہرین کی رائے
پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے مطابق 2025 میں ایسے 34 واقعات ہوئے جن میں صحافیوں کو حکومتی ہراسانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
فریڈم نیٹ ورک کے مطابق رواں سال کے پہلے 4 ماہ میں 14 صحافیوں پر مقدمات درج ہوئے، جن میں سے بیشتر پیکا قانون کے تحت تھے، اور 8 میں گرفتاری عمل میں آئی۔
میانوالی کے ماہرِ نفسیات محمد اسامہ گوندل کے مطابق ’مسلسل دھمکیوں اور قانونی کارروائیوں کے خطرے میں رہنے والے صحافی سیلف سینسرشپ کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔ ایسے افراد پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار بھی ہو سکتے ہیں، جن میں نیند کی کمی، ڈراؤنے خواب اور ماضی کے واقعات کی تلخ یادیں شامل ہیں‘۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ ’ہراسانی اور تشدد کا مقصد صحافی کی آواز کو دبانا ہے، جس سے وہ خوف کا شکار ہو کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر متاثرہ صحافی ذہنی مسائل کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور ماہرِ نفسیات سے رجوع نہیں کرتے، جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں‘۔
ڈسٹرکٹ پریس کلب میانوالی کے چیئرمین اختر مجاذ کے مطابق ’یہ رویہ نہ صرف انفرادی بلکہ مجموعی صحافتی معیار کو متاثر کرتا ہے۔ حساس موضوعات پر لکھنے سے ہچکچاہٹ بڑھ جاتی ہے اور تحقیقی صحافت کمزور پڑتی ہے‘۔
اقبال خٹک مزید بتاتے ہیں کہ ملک میں صحافیوں کی ذہنی صحت کے لیے کوئی مخصوص ادارہ موجود نہیں۔ پشاور میں ایک ٹراما سنٹر قائم کیا گیا تھا جو دہشت گردی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی مدد کے لیے تھا، مگر اب وہ بھی غیر فعال ہے۔
پاکستان میں صحافت صرف قلم چلانے کا عمل نہیں رہا، بلکہ یہ ایک مسلسل اعصابی جنگ بن چکی ہے، جہاں ہر سوال، ہر جملہ اور ہر خبر کے پیچھے گرفتاری، مقدمات اور تشدد کا سایہ منڈلاتا ہے۔
جیند خان اور رانا زاہد جیسے درجنوں صحافی آج بھی اس خوف اور دباؤ کے ساتھ جیتے ہیں کہ ان کی سچائی کی قیمت ان کی آزادی، عزت اور ذہنی سکون ہو سکتی ہے۔
جب تک صحافیوں کو آزاد اور محفوظ ماحول نہیں ملتا، نہ صرف ان کی ذہنی صحت خطرے میں رہے گی بلکہ عوام کا حقِ اطلاع بھی آہستہ آہستہ دم توڑ دے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔