عمران خان نیب ترمیمی قانون سے فائدہ اٹھانے والے پہلے شخص ہیں: ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد

بدھ 10 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نیب قانون میں ترمیم سے فائدہ اٹھانے والے سب سے پہلے شخص ہیں۔ اگر پرانا قانون ہوتا تو اس میں 90 دن کا ریمانڈ دیا جاسکتا تھا لیکن ترمیم شدہ قانون میں 14 دن سے زیادہ کا ریمانڈ ممکن نہیں۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر جدون نے بتایا کہ جس طرح سے نیب نے عمران خان کو گرفتار کیا ہے اس کے بعد ؎نیب کو ہر صورت شواہد دینا پڑیں گے ورنہ عدالتیں تو فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

عمران خان کے خلاف لاتعداد مقدمات کا جواز کیا ہے؟

جہانگیر جدون سے سوال پوچھا گیا کہ عمران خان کے خلاف لاتعداد مقدمات کے اندراج کی کیا وجہ ہے، جس پر انہوں نے بتایا کہ 2 دن پہلے تک ان کے خلاف اسلام آباد میں 32 ایف آئی آر درج تھیں جن میں سے زیادہ تر ایف آئی آر 26 مئی 2022 کے واقعات کے حوالے سے تھیں۔ پھر 18 مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس میں ان کی پیشی پر جو توڑ پھوڑ ہوئی اس حوالے سے ان پر ایف آئی آر درج کی گئیں اور کچھ ایف آئی آر جیسے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس پرانی چلی آرہی ہیں۔ لیکن اب جو کل کے احتجاج میں جو توڑ پھوڑ ہوئی اور جو املاک جلائی گئیں تو اس پر مزید ایف آئی آر درج ہوسکتی ہیں۔

فالوورز کے احتجاج اور توڑ پھوڑ کے ذمے دار عمران خان کیسے ہیں؟

وی نیوز نے ان سے سوال پوچھا کہ کارکنوں یا چاہنے والوں کی جانب سے کی گئی توڑ پھوڑ کے لیے پارٹی لیڈر کس طرح ذمے دار ہوسکتا ہے، تو جہانگیر جدون نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی عمران خان پیشی کے لیے آئے تو وہ فیس بک، ٹوئٹر یا دوسرے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کارکنوں کو وہاں پہنچنے کی ہدایت کرتے تھے۔

’عمران خان اگر گرفتار نہ ہوتے تو توشہ خانہ مقدمے میں کبھی پیش نہ ہوتے‘

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ کسی بھی عدالتی پیشی کے موقعے پر سوشل میڈیا کے ذریعے فالوورز اور کارکنان کو جمع کرنا عمران خان کی ہمیشہ سے حکمتِ عملی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل اگر عمران خان گرفتار نہ ہوتے تو توشہ خانہ کیس میں یہ کبھی پیش نہیں ہوتے اور یوں ان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکتی تھی۔

کیا عمران خان کے بارے میں عدالتوں کا رویہ نرم ہے؟

اس سوال کے جواب میں جہانگیر جدون نے کہا کہ عام تاثر بھی یہی ہے اور ہم نے بھی یہ دیکھا ہے جبکہ عدالتیں حکومت کو اس بات کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انسدادِ دہشتگردی عدالت کے جج نے ایک ہفتے پہلے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو گرفتار کرنا نہیں ہے ہم ضمانت دیں یا نہ دیں کیا فرق پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ غیر معمولی بات ہے کہ ایک بندے کی درخواست اسی وقت دائر ہو، اسی وقت نمبر لگے اور اسی وقت سماعت بھی ہوجائے۔

جہانگیر جدون نے مزید کہا کہ یہ تو صرف کتابوں میں ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ ایک عام آدمی کے مقدمے میں کبھی اس طرح کارروائی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ عوام، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے دباؤ کے زیرِ اثر سیاسی مقدمات کو سماعتوں میں ہمیشہ فوقیت ملتی ہے۔

’نواز شریف نے کبھی عدالتی کارروائی میں رکاوٹ نہیں ڈالی‘

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف ہمیشہ پونے 9 بجے عدالت میں موجود ہوتے تھے اور بعض اوقات عدالت ان سے کہتی تھی کہ آپ حاضری لگا کر چلے جائیں اور 11 بجے دوبارہ آجائیں اور وہ ایسا ہی کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی عدالتی کارروائی میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ جہانگیر جدون نے مزید بتایا کہ نواز شریف کے برعکس عمران خان عدالتی کارروائی کو لٹکانا چاہتے ہیں۔

فارن فنڈنگ کیس 8 سال تک لٹکائے رکھا

انہوں نے کہا کہ ہر پیشی پر کارکنوں کو بلا لینا عمران خان کی ہمیشہ سے حکمتِ عملی رہی ہے اور اسی طرح انہوں نے 8 سال تک فارن فنڈنگ کیس لٹکائے رکھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظر آرہا تھا کہ ان پر فردِ جرم عائد کرنا مشکل ہے کیونکہ جب 2، 4 ہزار بندہ آپ کے ساتھ آجائے گا تو مشکل کھڑی ہوجائے گی۔

میڈیا کی مشکلات

عمران خان کے مقدمات کی کوریج میں میڈیا کو درپیش مشکلات پر بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کا کہنا تھا کہ اس کے لیے کوئی طریقہ کار بننا چاہیے۔ یہ کوئی ان کیمرا کارروائی نہیں ہورہی اور میڈیا کو اس کی کوریج کا پورا حق حاصل ہے۔

عمران خان کے مقدمات پولیس لائن کیوں منتقل کئے گئے؟

عمران خان صاحب کے مقدمات کی سماعت پولیس لائن میں کیے جانے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت ضابطہ فوجداری کی دفعہ 9 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت خاص حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے سماعت کا مقام تبدیل کرسکتی ہے۔ ایسے حالات جہاں نقص امن کا خدشہ ہو تو صوبائی حکومت کسی مقدمے کی سماعت کی جگہ تبدیل کرکے، کسی دوسری جگہ کو بطور عدالت نوٹیفائی کرسکتی ہے۔

عمران خان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری خلاف قانون ہے؟

اس سوال کے جواب میں جہانگیر جدون نے پہلے عمران خان صاحب کی گرفتاری کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کل ان کی 2 درخواستیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت تھیں۔ ایک توشہ خانہ سے متعلق اور دوسری عوام کو اشتعال دلانے سے متعلق۔ انہوں نے بتایا کہ اسی دوران انہیں خبر ملی کہ عمران خان صاحب کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ 15 منٹ میں سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو بلوائیں۔

انہوں نے کہا کہ تاہم جس انداز میں عمران خان صاحب کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اس پر عدالت نے نوٹس لیا ہے اور 16 مئی کے لیے سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہینِ عدالت کے اظہار وجوہ نوٹسزجاری کیے گئے ہیں۔

عمران خان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری سے متعلق انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں کہ آپ احاطہ عدالت سے گرفتار نہیں کرسکتے لیکن اگر ایک شخص عدالت سے کسی معاملے میں ریلیف لینے کے لیے عدالت میں موجود ہے اور اس نے اس مخصوص مقدمے سے متعلق جس میں اسے گرفتار کیا جاتا ہے اس کے لیے ضمانت کی درخواست دائر کر رکھی ہے تو پھر اس کو گرفتار کرنا عدالت کے تقدس کے خلاف ہے کیونکہ وہ بندہ عدالت سے انصاف کے حصول کے لیے آیا ہوتا ہے اور سماعت سے قبل کسی کو گرفتار کرنا عدالتی عمل پر اثرانداز ہونے کے مترادف ہے۔ تاہم عمران خان صاحب کو جس مقدمے میں گرفتار کیا گیا اس مقدمے میں ان کی درخواستِ ضمانت عدالت میں دائر نہیں تھی لیکن عمران خان صاحب کے وکلا کے بقول وہ اس مقدمے میں درخواست ضمانت دائر کرنے والے تھے

کیا شوکت خانم اسپتال کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں جمع کروائی جاسکتی ہیں؟

اس سوال کے جواب میں بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ ’اس نقطے پر میں نے عدالت میں جرح بھی کی تھی کہ آپ شوکت خانم اسپتال کی میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر سماعت ملتوی نہیں کرسکتے اور پھر عدالت نے اپنے حکم نامے میں عمران خان صاحب کو ہدایت کی کہ اگر آپ بیماری کی وجہ سے اپنی گاڑی احاطہ عدالت کے اندر لے کر آنا چاہتے ہیں تو آپ کو پمز ہسپتال سے میڈیکو لیگل رپورٹ بنوانا ہوگی۔ قانون کے تحت سرکاری ہسپتالوں کے اندر نامزد ڈاکٹرز ہوتے ہیں اور صرف انہیں ہی میڈیکو لیگل رپورٹس جاری کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp