الاسکا: جیت کس کی ہوئی؟

جمعرات 21 اگست 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی نے ایک بار پھر کروٹ لی ہے۔ اور یہ ایک بار پھر دوستانہ ماحول میں روس کے ساتھ مسائل کا حل ڈھونڈ رہی ہے۔ سو ایک بار پھر وہ یورپ اور زلنسکی کو زہر لگنے لگے ہیں۔ ان کی یہ کروٹ دراصل ان کا اسی مؤقف کی جانب لوٹنا ہے جو انہوں نے اقتدار کا دوسرا دورانیہ شروع کرتے وقت اختیار کیا تھا۔ اور جسے دنیا بھر کے امن پسندوں نے سراہا تھا۔ مگر کچھ ماہ بعد انہوں نے ایسا مؤقف اختیار کرلیا جس سے وہ ایک نیوکانز صدر نظر آنے لگے۔ کیا وہ واقعی نیوکانز بن گئے تھے یا یہ محض فریب تھا؟ اس سوال نے عالمی تجزیہ کاروں کو الجھا رکھا ہے۔ کچھ کی رائے ہے کہ وہ واقعی ان نیوکانز کے ہمنوا ہوگئے تھے جو جنگی جنون سے مال بنانے والا ذریعہ معاش رکھتے ہیں۔ لیکن پچھلے ایک ماہ کے دوران رشین آرمی نے یوکرین میں اتنی برق رفتار پیش قدمی کرلی کہ لگ بھگ طے ہی ہوگیا کہ یوکرین کا دفاع ہی نہیں پولیٹکل سسٹم بھی دھڑام سے زمین بوس ہونے کو ہے۔ سو صدر ٹرمپ کو واپس اپنے پرانے مؤقف کی جانب لوٹ کر دوستانہ ماحول والی پالیسی پھر سے اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

مگر کچھ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ایسا نہیں۔ ٹرمپ نیوکانز والے مؤقف کی جانب صرف یورپین لیڈروں کو بہلانے کے لیے گئے تھے۔ پس پردہ روس سے ان کی ٹیم کی دوستانہ باچیت بدستور جاری تھی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ انہوں نے یہ حاصل کیا کہ روس سے دوستانہ تعلقات کی خواہش سے ان پر نیوکانز کا جو زبردست دباؤ آگیا تھا، وہ باقی نہ رہا۔ اور جوں ہی پس پردہ بات چیت میں بڑی پیش رفت ہوگئی تو انہوں نے صدر پیوٹن کو الاسکا کے دورے کی دعوت دے ڈالی۔ اس رائے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ٹرمپ کے نیوکانز والے مؤقف کی جانب جانے سے ماسکو میں کوئی بے چینی نظر نہیں آرہی تھی۔ وہاں کوئی بڑی ہلچل تو کجا صدر پیوٹن کی جانب سے کوئی ایسا فقرہ بھی سامنے نہ آیا جس سے لگا ہو کہ ٹرمپ کے نئے موڈ نے ان کے لیے کوئی الجھن کھڑی کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 14 اگست اور جبری تاریخ

پھر ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ جب صدر پیوٹن الاسکا پہنچے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے پروٹوکول کی ایسی کی تیسی پھیردی۔ انہوں نے صدر پیوٹن کے استقبال کے لیے 3 روایات توڑیں۔ پہلی روایت شکنی یہ کہ ان کے لیے ریڈ کارپٹ بچھایا جو امریکی غیرملکی سربراہان کے لیے نہیں بچھاتے۔ دوسری یہ کہ ٹرمپ نے ویلادیمیر پیوٹن کا  ٹارمک پر  استقبال کیا۔ زمانے ہوگئے غیرملکی سربراہان کا امریکی صدور ایئرپورٹ پر استقبال نہیں کرتے۔ تیسری چیز یہ ہوئی کہ صدر پیوٹن کے طیارے کو امریکی فضائی حدود میں یو ایس ایئرفورس نے حفاظتی حصار بھی فراہم کیا جو ایک مزید خلاف معمول اقدام تھا۔ ہرچند کہ حفاظتی حصار سے تحفظ کی فراہمی کا تاثر ابھرتا ہے لیکن فی الحقیقت یہ مہمان سربراہ کی تکریم کے لیے ہوتا ہے۔ پھر سب سے اہم چیز یہ کہ جب دونوں صدور ملے تو ان کا والہانہ پن قابل دید تھا۔  صرف ایک ہفتہ قبل صدر ٹرمپ نے 50 روزہ ڈیڈ لائن کو 10 دن میں بدلا تھا۔ جس پر یورپین لیڈروں نے خوب بغلیں بجائی تھیں۔ لیکن الاسکا میں استقبال کے مناظر چند روز قبل کے دھمکی والے ماحول سے کسی طور بھی میل نہیں کھاتے تھے۔

چلتے ہیں اس سوال کی جانب جو ہر جگہ زیربحث ہے۔ یہ کہ صدر پیوٹن کا دورہ الاسکا کیسا رہا؟ جیت کس کی ہوئی ؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ جیت صدر پیوٹن کی ہوئی ہے۔ مگر اس کے لیے وہ جو دلیل پیش کرتے ہیں وہ احمقانہ ہے۔ ٹرمپ مخالف کیمپ کا کہنا ہے صدر پیوٹن تنہائی کا شکار کردیے گئے تھے۔ الاسکا دورے نے ان کی یہ تنہائی ختم کردی ہے اور وہ ایک بار پھر سینٹر اسٹیج کے مزے لے رہے ہیں۔ یہ دلیل احمقانہ یوں ہے کہ صدر پیوٹن اس گلوبل ساؤتھ کے لیڈر ہیں، جس میں دنیا کے 80 فیصد ممالک شامل ہیں۔ سو انہیں تنہائی کا شکار وہی سمجھ سکتا ہے جس کی دنیا صرف 3 ساڑھے 3 درجن ممالک والے گلوبل نارتھ پر ہی مشتمل ہو۔

مزید پڑھیے: پاکستان کا عالمی قد کاٹھ

 ہماری رائے میں جیت دونوں صدور کی ہوئی ہے مگر ابتدائی درجے کی۔ یعنی جیت فی الحال نامکمل حالت میں ہے۔ اور اس حالت میں یہ خطرات سے دوچار ہے۔ خطرات کی جانب بعد میں آتے ہیں پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ دونوں صدور کے لیے جیت کیسے ہے ؟ صدر پیوٹن کی جیت یہ رہی کہ امریکا سیز فائر والے مطالبے سے دستبردار ہوگیا۔ اور طے پایا کہ سیز فائر کی بجائے براہ راست امن معاہدے کی جانب جایا جائے گا۔ کیا یہ صدر ٹرمپ کی ہار بھی ہے؟ نہیں۔ وجہ بالکل سمپل ہے۔ ٹرمپ کا مسلسل یہ مؤقف چلا آرہا ہے کہ وہ اس جنگ کے پہلے روز سے خلاف ہیں۔ اور انہوں نے انتخابی مہم میں ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اسے بند کروائیں گے۔ یوں جنوری سے ٹرمپ یہ کہتے آرہے ہیں کہ وہ اس جنگ میں فریق نہیں ثالث ہیں۔ فریق روس اور یوکرین ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ روسیوں نے ایک بار بھی ٹرمپ کے اس مؤقف کو چیلنج نہیں کیا۔ گویا ٹرمپ کی  ثالث والی حیثیت انہیں تسلیم ہے۔ اگر ٹرمپ ثالث ہیں تو پھر ان کی کہی بات کسی فریق کا مؤقف نہیں بلکہ تجویز ہے۔ سو اگر سیز فائر کی تجویز منظور نہ ہوئی تو یہ ٹرمپ کی شکست نہیں بن سکتی۔

یہاں ایک اور چیز سمجھنی ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ کی ثالث والی حیثیت صرف یوکرین جنگ تک ہی رہ سکتی ہے۔ جبکہ روس کا مکمل مؤقف یہ چلا آرہا ہے کہ یوکرین تو ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ اصل مسائل کچھ اور ہیں۔ وہ مسائل جو یوکرین کی جنگ کا باعث بنے۔ اسے وہ ’روٹ کاز‘ کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ بات الاسکا میں روسیوں نے دہرائی بھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے مسلسل دامن بچائے چلے آرہے ہیں۔ لیکن جب دونوں صدور کے مابین اگلی ملاقات ہوگی اور امن معاہدے کو شیپ دیا جائے گا تو لگتا نہیں کہ روسی ’روٹ کاز‘ کے بغیر آگے بڑھیں گے۔ اور یہ ایسی چیز ہے جسے تسلیم کرتے ہی صدر ٹرمپ فریق کا درجہ حاصل کرجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ روٹ کاز سے امریکی دامن کیوں بچا رہے ہیں؟ اس لیے کہ اگر یہ مان لیے تو پھر امریکا کی وار انڈسٹری کیسے چلے گی؟ یہ روس کا ہی ڈراوا تو ہے جس کے دم پر 80 سال سے امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی رونقیں لگی ہوئی ہیں۔

 اب آجایئے اس سوال کی جانب کہ الاسکا والی دو طرفہ جیت کو خطرات کس سے لاحق ہیں؟ نامکمل جیت کو پہلا خطرہ خود صدر ٹرمپ سے لاحق ہے جو سیلانی طبیعت کے مالک ہیں۔ کسی بھی مؤقف سےکسی بھی لمحے پلٹ جانا ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اس معاملے میں وہ اس روایتی خوف کی بھی پروا نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ٹرمپ کی دنیا میں ایسے لوگ شاید پائے ہی نہیں جاتے جن کے متعلق وہ یہ سوچنے کا تکلف فرمائیں کہ وہ کیا سوچیں گے؟ اور مؤقف سے پلٹتے وہ اس دیدہ دلیری کے ساتھ ہیں کہ جو بات انہوں نے درجنوں بار میڈیا پر کہہ رکھی ہوتی ہے، اس سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مکر جاتے ہیں۔ مثلا انہوں نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے یوکرینی صدر زلنسکی کو ڈکٹیٹر کہا۔ لیکن جب کچھ دن بعد صحافیوں میں سے ایک نے سوال کیا

’کیا آپ زلنسکی کو اب بھی ڈکٹیٹر سمجھتے ہیں؟‘

تو جواب آیا

’میں نے زلنسکی کو ڈکٹیٹر کب کہا ؟ میں ایسی بات نہیں کرسکتا‘۔

ٹرمپ اور پیوٹن کی جیت کو دوسرا بڑا خطرہ ان یورپین لیڈروں سے ہے جو بہادر اتنے ہیں کہ گھر سے یہ کہہ کر نکلے تھے۔

’ہم صدر ٹرمپ کو سمجھائیں گے کہ انہیں پیوٹن پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ اور وہی کرنا چاہئے جو ہم کہتے آرہے ہیں‘۔

لیکن جب یہ وائٹ ہاؤس پہنچے اور صدر ٹرمپ کے سامنے بیٹھے تو مغل دربار میں پائے جانے والے خوشامدیوں کے بھی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ان کے لگائے مسکے کچھ اس طرح کے تھے۔

’آپ نے الاسکا سمٹ میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ بس آپ کا ہی کارنامہ ہے۔ تاریخ میں ایسی کامیابی کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی‘۔

اگر آپ ملاقات کی ویڈیو دیکھیں تو نشستوں کی ترتیب آپ کو بتا دے گی کہ ٹرمپ نے اس سیٹ اَپ سے ہی انہیں وارننگ دیدی تھی کہ اپنی حد میں رہنا۔ مثلا 8 میں سے جن 4 کو انہوں نے میز کے 4 کارنرز پر رکھا، ان میں یورپین کمیشن کی صدر ارسلہ وندر لین، خود کو ٹارزن سمجھنے والے جرمن چانسلر میٹز، ٹرمپ کو علانیہ طور پر باپ قرار دینے والے نیٹو سیکریٹری جنرل مارک روٹے اور خیراتی مہنگے لباس زیب تن کرنے والے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر شامل تھے۔ نتیجہ یہ کہ وائٹ ہاؤس تک پہنچنے سے قبل یہ سب جسے اپنا مؤقف کہہ رہے تھے۔ وہ وہ وائٹ ہاوس پہنچتے ہی ’تجاویز‘ میں کنورٹ ہوگیا۔

مزید پڑھیں: کون بچائے گا اسرائیل کو؟

ہرچند کہ یہ سب مسکے بازیاں کرکے لوٹ چکے مگر وارداتوں سے  باز شاید ہی آئیں۔ بالخصوص برطانیہ کی وارداتوں کا امکان یوں سب سے زیادہ ہے کہ ایم آئی سکس یوکرین میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔ اور واردات کا امکان وائٹ ہاؤاس نے یوں مزید بڑھا دیا ہے کہ ان سب کے جاتے ہی ان کی اوول آفس  کی ملاقات کی ایک ایسی تصویر جاری کردی ہے۔ جس میں یہ سب کسی کلاس روم کی طرح قطار میں لگی کرسیوں پر ٹرمپ کے آگے بیٹھے ہیں اور خود ٹرمپ عین ہیڈ ماسٹر والے اسٹائل میں جلوہ افروز ہیں۔ یہ تصویر پہلی ہی نظر میں اس حد تک کلاس رومی ہے کہ دنیا بھر کے سوشل میڈیا میں اسے کلاس روم کا ہی عنوان ملا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp