چینی وزیرِ خارجہ کا دورہ پاکستان کیوں اہم ہے؟

جمعہ 22 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چینی وزیر خارجہ وانگ ژی دورہ بھارت اور کابل کے بعد گزشتہ روز اِسلام آباد پہنچے، جہاں اُنہوں نے پاک چین اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے چھٹے دور میں شرکت کی۔ چینی وزیرِخارجہ کا دورہ نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایک طرف چین نے بھارت کے سرحدی تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کا آغاز کیا جس کی دعوت بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر کی جانب سے اُن کے دورہ چین کے دوران دی گئی تھی۔ دوسری طرف کابل میں ہونے والے پاکستان، چین، افغانستان سہ فریقی مذاکرات اور سی پیک فیز ٹو کی افغانستان تک توسیع خطے میں پائیدار امن کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

وانگ ژی کا دورہ پاک چین تعلقات کو نئی جہت دینے، سی پیک کو مضبوط کرنے اور خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی و سیکیورٹی صورتحال میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ یہ دورہ نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو گہرا کرے گا بلکہ پاکستان کی معاشی اور اسٹریٹجک پوزیشن کو مضبوط کرنے میں بھی مدد دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: چین پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے، چینی وزیر خارجہ

چینی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ پاکستان پاک چین اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا حصہ ہے، جس کی مشترکہ صدارت وانگ ژی اور پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کررہے ہیں۔ جس میں دوطرفہ تعلقات، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، دفاعی تعاون، اقتصادی معاملات اور علاقائی سلامتی پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔

علاقائی تناظر میں یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب خطے میں پاک بھارت تناؤ اور حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد کی صورتحال عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ چین نے حالیہ پاک بھارت تصادم میں پاکستان کی حمایت کی تھی، اور اس دورے میں بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال میں تعاون کو مزید گہرا کرنے پر غور کیا جائے گا۔

دوسری طرف پاکستان کے امریکا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں یہ دورہ اہم ہے۔ چین اس دورے کے ذریعے پاکستان کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔

دورے کے دوران سی پیک منصوبوں کی پیشرفت اور پاک چین تجارتی و معاشی تعاون کو وسعت دینے پر توجہ دی جائے گی۔ چین سی پیک کے ’اپ گریڈ ورژن‘ پر کام کرنے کا عزم رکھتا ہے، جو پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے اہم ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس دورے میں انسداد دہشتگردی کے اقدامات اور سیکیورٹی تعاون پر بھی بات ہوئی۔ عالمی سطح پر چین نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور بین الاقوامی امور میں اس کے کردار کی حمایت کی ہے۔

چین کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے بارے میں بین الاقوامی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

واشنگٹن میں جنوب ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے اپنے حالیہ ٹوئٹس میں لکھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے 11 سالہ دورِحکومت میں اِس وقت مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہیں جس میں اُن کے لیے مُلکی اور بین الاقوامی مُشکلات ایک ساتھ اِکٹھی ہو گئی ہیں۔

ایک اور ٹوئٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ بھارت کے خلاف امریکا کی جارحانہ پالیسیوں کے سبب بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کی بحالی عمل تیز ہو گیا ہے۔

جبکہ تکشیلا انسٹیٹیوٹ کی محقق بھارتی تجزیہ نگار انوشکا سکسینا نے لکھا ہے کہ ایسے وقت میں جب بھارت اور چین کے تعلقات بحال ہونا شروع ہوئے ہیں، علامتی طور پر ہی سہی پر چینی وزیرِ خارجہ کی جانب سے دورہ پاکستان کو مؤخر کیا جا سکتا تھا۔ لیکن چین کی جانب سے بھارت پر دباؤ برقرار رکھنے کی پالیسی واضح ہے اور پاکستان اس پالیسی کا بنیادی جزو ہے۔

لین ژاؤ یونیورسٹی بیلٹ اینڈ روڈ ریسرچ سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ژو ژانگبیاؤ نے گلوبل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے چین نے اپنا کردار ادا کیا ہے اس لیے افغانستان میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات نہ صرف پہلے سے جاری مذاکرات کا تسلسل بلکہ ایک نئی شروعات ہیں۔

چینی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اہمیت کا حامل ہے، مسعود خان

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب مسعود خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ چینی وزیرِخارجہ وانگ ژی کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس سے قبل پاکستان کی جانب سے دو دورے ہو چُکے ہیں۔ ایک بار جب نائب وزیراعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار 10 مئی کو بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ بندی کے بعد چین کا شکریہ ادا کرنے خصوصی طور پر چین گئے جس کا مقصد پاکستان اور چین کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنا تھا۔ اُس کے بعد گزشتہ ماہ جولائی میں پاکستان فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر چین کے دورے پر گئے جہاں اُنہوں نے چین کے نائب صدر خان چنگ اور وزیرِخارجہ وانگ ژی سے ملاقات کی۔

مسعود خان نے کہاکہ اُس دورے میں چینی قیادت نے پاکستان فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بڑی تعریف کی اور دونوں ممالک نے دفاعی شعبے میں تعلقات مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان کو دفاعی صنعت میں چین کی مدد کی ضرورت ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کو جو مشترکہ خطرات لاحق ہیں اور جو بین الاقوامی جرائم ہوتے ہیں اُن کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی بنانے پر بات چیت کی گئی۔

انہوں نے کہاکہ چینی وزیرِخارجہ وانگ ژی کا حالیہ دورہ پاکستان اس لحاظ سے اہم ہے کہ اِس میں چینی وزیرِخارجہ پہلے سرحدی معاملات پر بات چیت کے لیے بھارت گئے، اُس کے بعد پاکستان، چین اور افغانستان سہ فریقی مذاکرات کے لئے کابل گئے۔ اِن سہ فریقی مذاکرات کے بہت سے نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ اِس سے خطّے میں امن و امان اور اہم آہنگی بڑھانے میں مدد ملے گی، اور پاکستان اور چین کے مابین سٹریٹجک تعلقات میں اِضافہ ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ چین کی پالیسی یہ ہے کہ جنگ وجدل کے بغیر مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی طرف جایا جائے، پاکستان کو اِس وقت چین کی مالی مدد کی ضرورت ہے۔ چین کی جانب سے پاکستان میں شروع کیا گیا سی پیک منصوبہ 62 ارب ڈالر کا ہے جس میں سے 25 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل کیے جا چُکے ہیں۔

مسعود خان نے کہاکہ چین نے پاکستان کو دو سہ فریقی اتحاد بنا کر دئیے ہیں۔ ایک طرف پاکستان چین اور افغانستان، دوسری طرف پاکستان چین اور بنگلہ دیش۔ یہ بھارت کے لیے ایک جواب ہے کہ بھارت جو خطّے میں اپنی اجارہ داری کے ذریعے پاکستان کی راہیں مسدود کرنے کی کوشش کر رہا تھا، پاکستان کی راہیں مزید کشادہ ہو گئی ہیں، اور پاکستان زیادہ مؤثر طریقے سے سفارتکاری کر کے اپنے مفادات کے لیے کام کر سکتا ہے۔

کیا چینی وزیرِخارجہ کے دورہ بھارت پر پاکستان کو متفکر ہونا چاہیے؟

اس سوال کے جواب میں مسعود خان نے کہاکہ گزشتہ ماہ بھارتی وزیرِخارجہ جے شنکر چین کے دورے پر گئے تھے جہاں اُنہوں نے اپنے ہم منصب کو دورہ بھارت کی دعوت دی۔ چینی وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ دورہ بھارت کے ساتھ سرحدی اُمور سے متعلق معاملات پر بات چیت کے لیے تھا۔

انہوں نے کہاکہ چین اور بھارت کے درمیان اروناچل پردیش اور اکسائی چن کو لے کر سرحدی دیرینہ مسائل ہیں اور 2020 میں دونوں ممالک کے درمیان ڈوکلان اور گلوان کے مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئیں تو اب دونوں ممالک ان سرحدی اُمور کو بات چیت کے ذریعے طے کرنا چاہتے ہیں اور اِس سلسلے میں پاکستان کے لیے کوئی تشویش کی بات نہیں۔

کیا پاک چین تعلقات پاک امریکا تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں سابق سفارتکار نے کہاکہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں جو نئی شروعات ہوئی ہے اُس میں بڑی طاقت اور توانائی ہے۔ امریکا کا پاکستان میں مفاد ہے اور امریکا کے ساتھ ان تعلقات کے نتیجے میں پاکستان کے لیے بہت سے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ لیکن پاک چین تعلقات پاک امریکا تعلقات کو متاثر نہیں کر سکتے۔

چینی وزیرخارجہ کا دورہ بھارت پاکستان کے لیے کسی تشویش کا باعث نہیں، مسعود خالد

بیجنگ میں پاکستان کے 13 سال مسلسل سفیر رہنے والے سابق سفارتکار مسعود خالد نے چینی وزیرِخارجہ وانگ ژی کے دورہ پاکستان کو خوش آئند قرار دیا اور کہاکہ چینی وزیر خارجہ بنیادی طور پر چھٹے اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے لیے پاکستان آئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ سرحدی مسائل پر بات چیت کے لیے بھارت گئے اور پھر پاکستان، چین، افغانستان سہ فریقی مذاکرات کے لیے کابل گئے۔

انہوں نے کہاکہ چینی وزیرِخارجہ کا دورہ پاکستان علاقائی صورتحال کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے کیونکہ ہمیں اپنے سی پیک کو چلانا چاہیے۔

اُنہوں نے کہا چینی وزیرخارجہ کا دورہ بھارت پاکستان کے لیے کسی تشویش کا باعث نہیں کیونکہ یہ سرحدی اُمور سے متعلق تھا اور چین اپنے سرحدوں کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرا بھارت چین کے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور دونوں مُلکوں کا تجارتی حجم بہت زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر آصف علی زرداری سے چینی وزیرخارجہ کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات کے مزید فروغ پر اتفاق

سی پیک کی افغانستان تک توسیع کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسعود خالد نے کہاکہ چین پہلے ہی پورے یوریشئن ریجن پر کام کر رہا ہے اور سی پیک کی توسیع براستہ پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں تک ہوگی جو کہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp