ہم آپریشن ختم کرنے جارہے ہیں، ہمارا اعلان۔
اور ہر بار سرجن کا یہ اعلان آپریشن تھیٹر کے سب ارکان کے لیے ایک اہم سندیسہ ہوتا ہے۔
اسسٹنٹ نرس ایک دیوار کے ساتھ لگے بورڈ کی طرف دوڑی اور گننے لگی۔
بڑے ماپس (تولیے): 8
چھوٹے ماپس (تولیے): 6
سوئیاں: 6
قنچیاں: 2
فورسپیس: 2
بڑے ریٹریکٹر: 2
چھوٹے ریٹریکٹر: 2
چاقو بمع بلیڈ: 2
آرٹری فورسیپس: 6
ایلیسسز فورسپیس: 4
گرین آرمیٹیج فوریپس : 4
سوئی پکڑنے والا فورسیپس: 2
اچھا بھئی اگلا دھاگہ دو۔۔۔ ہم نے کہا۔
ابھی آپ بند نہیں کر سکتیں، ہماری گنتی پوری نہیں ہوئی۔۔۔ ہمارے ساتھ کھڑی نرس اور اسسٹنٹ نرس نے بیک زبان ہو کر کہا۔
اور ہم نے نہ صرف ہاتھ روکے بلکہ زبان بھی دانتوں تلے دے ڈالی کہ یہ وہ مقام تھا جہاں ہمارے پر جلتے تھے۔
دو منٹ بعد ہم نے پوچھا، ہو گئی گنتی؟ کریں بند اب؟
جی گنتی تو ہو گئی مگر ایک ماپ (تولیہ) نہیں مل رہا، نرس نے فکرمند لہجے میں کہا۔
(ماپ عرف عام میں اس کپڑے کو کہتے ہیں جس سے دوران آپریشن خون پونچھا جاتا ہے اور جس کے متعلق آپ خبریں سنتے رہتے ہیں کہ سرجن نے تولیہ مریض کے پیٹ میں چھوڑ دیا)۔
ہم پھر ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے کھڑے ہوگئے۔ ہمارے ساتھ کھڑی نرس ان ماپس کو پھر سے گن رہی تھیں جو آپریشن ٹیبل پہ موجود تھے اور اسسٹنٹ نرس ایک طرف پڑے ان ماپس کو الٹ پلٹ رہی تھیں جو آپریشن میں استعمال ہو چکے تھے۔ استعمال ہو جانے کامطلب یہ کہ خون سے بھرے ہوئے اور اب ان میں مزید خون پونچھنے کی صلاحیت نہیں رہی۔ یاد رہے کہ یہ تولیے ایک بار استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔
اسسٹنٹ نرس نے پھر اعلان کیا، ایک ماپ کم ہے۔۔۔ یہ سن کر ہمارے ساتھ کھڑی نرس نے مریض کے پیٹ میں جھانکنا شروع کردیا کہ شاید ہم نے بنا بتائے کوئی ماپ اندر نہ ٹھونس دیا ہو۔ یہ بھی سن لیجیے کہ ہم نرس کو بتائے بنا کوئی ماپ مریض کے پیٹ کے اندر نہیں رکھ سکتے۔ اگر ایسا کرنے کی ضرورت پڑے تو ہم نرس سے ماپ مانگیں گے اور وہ اس کے کنارے پہ لگی چھوٹی سی ڈوری سے ایک اوزار لگا کر ہمیں پکڑائے گی۔ ماپ پیٹ میں اس طرح رکھا جائے گا کہ ڈوری اور اس کے ساتھ لگا اوزار پیٹ سے باہر لٹکا رہے۔
نرس کو پیٹ کے اندر جھانکتا دیکھ کر ہم نے کہا، سسٹر ہم نے بغیر بتائے اندر کچھ نہیں رکھا۔
جی لیکن مجھے تو ماپ ڈھونڈنا ہے، اس کے بغیر میں آپ کو مریض کا پیٹ بند کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی، یہ میری ذمہ داری ہے، نرس نے فکر مندی سے کہا۔
جی۔۔ جی۔۔ بالکل۔۔۔ ہم انتظار کریں گے۔۔ ہم نے صبر سے کہا۔ گوکہ طویل آپریشن نے ہمیں بری طرح تھکا دیاتھا مگر اوزاروں اور ماپس کی گنتی پوری کیے بغیر مریضہ کا پیٹ بند نہیں کیا جا سکتا تھا، چاہے اس میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگے۔
نرس نے مریضہ کے اوپر ڈالے کپڑے الٹ پلٹ کر دیکھ لیے، اسسٹنٹ نرس نے میز کے نیچے اور سرجنز کے پاؤں کے درمیان جھانک لیا شاید ماپ نیچے گر گیا ہو اور ہمیں پتا نہ چلا ہو۔
نرس نے اسسٹنٹ نرس سے کہا، بے بی ٹرالی بھی دیکھ لو۔
بے بی ٹرالی کا قصہ بھی سن لیجیے۔ بچہ پیٹ سے نکال کر ایک منٹ کے لیے میز پہ ہی رکھا جاتا ہے تاکہ آنول نال میں موجود خون زیادہ سے زیادہ بچے کے اندر چلا جائے۔ پھر نال کاٹ کر بے بی نرس کے حوالے کہا جاتا ہے جو بچے کو ایک علیحدہ ٹرالی کی طرف لے جاتی ہے جہاں بچوں کا ڈاکٹر اس کا معائنہ کرنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ عام طور پہ بچہ نرس کے حوالے کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کی جاتی ہے کہ آپریشن ٹیبل سے کچھ بھی بچے کے ساتھ نہ جائے مگر انہونی کبھی بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی کبھار ماپ اس طرح سے بچے کے ساتھ جڑ کر چلا جاتا ہے کہ کسی کو پتا ہی نہیں چلتا، لیکن اگر ایسا ہو تو پھر وہ بے بی ٹرالی سے مل جاتا ہے۔
اسسٹنٹ نرس فوراً بے بی ٹرالی کی طرف گئی اور پھر اس کے منہ سے نعرہ مستانہ کی طرح نکلا، یہ رہا۔
ہم سب کی جان میں جان آئی، بورڈ پہ لکھی چیزوں کی گنتی پوری ہوئی اور ہمیں اجازت دی گئی کہ اب ہم مریض کا پیٹ بند کر سکتے ہیں۔
یہ بلاگ ہم ڈاکٹروں پہ لگائے گئے ان الزامات کی وضاحت میں لکھ رہے ہیں جن کے مطابق ڈاکٹر لاپرواہی سے کام لیتے ہوئے مریض کے پیٹ میں تولیہ، قینچی یا کوئی بھی اوزار چھوڑ دیتے ہیں۔ آپریشن کرتے ہوئے سرجن مریض میں اس قدر گم ہوتا ہے کہ قینچی، چھری، سوئی دھاگہ اور تولیے کے معاملات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ انہیں استعمال کرتا ہے۔ ان سب چیزوں کو سرجن کے ہاتھ میں پکڑانا، واپس لینا، ان کی گنتی کرنا اور پیٹ بند نہ کرنے دینا اس نرس کی ذمہ داری ہے جو آپریشن میں سرجن کے ساتھ شریک ہوتی ہے۔
آپریشن کرنا ایک ٹیم ورک ہے جس میں ہر کوئی اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے لیکن باہر کھڑی عوام کو صرف یہ علم ہے کہ ڈاکٹر نے پیٹ کھولا اور بند کردیا۔
ہم پیٹ بند کر چکے، اب اجازت دیجیے۔ ا گلی بار تک کے لیے ایک اور قصے کے ساتھ!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔