سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف دائر کردہ درخواست پر اپنا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ درخواست گزار کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین، قومی احتساب بیورو کی جانب سے مورخہ یکم مئی 2023 کو جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کا طریقہ غلط اور غیر قانونی ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ چوں کہ درخواست گزار نے پہلے ہی القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کی جانب سے کی گئی کارروائی کے خلاف عدالتی ریلیف حاصل کرنے کے لیے عدالت میں سرنڈر کر دیا تھا اس لیے مذکورہ وارنٹ پر عمل درآمد نے درخواست گزار کے انصاف تک رسائی کے حق اور عدالت کے تقدس اور تحفظ کی خلاف ورزی کی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10-A اور 14 کے تحت درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
اپنے حکم میں سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 12 مئی 2023 کو کو صبح 11 بجے اسلام آباد ہائی کورٹ میں القادر ٹرسٹ کیس میں اپنے خلاف نیب کی کارروائی کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کی گئی رٹ پٹیشن کی سماعت کے لیے پیش ہوجائے۔
عدالت نے نیب حکام اور اسلام آباد پولیس کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزار کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے تک ان کی فول پروف سیکیورٹی یقینی بنائیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس رٹ ]پٹیشن کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے رکھیں تاکہ اس کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا جائے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی کل یعنی 12 مئی کو صبح 11 بجے ہائی کورٹ میں پیشی تک اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے وہ پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں رہے۔ جب تک درخواست گزار پولیس گیسٹ ہاؤس میں ہوتا ہے، وہ 10 مہمانوں سے مل سکے گا جن کی تفصیلات وہ متعلقہ پولیس افسر کو فراہم کرے گا اور ان افراد کو جب تک درخواست گزار چاہے اس کے ساتھ رہنے کی اجازت ہوگی۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ یہ حکم کل یعنی 12 مئی 2023 کو صبح 11 بجے درخواست گزار عمران خان کے ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے تک کارآمد رہے گا اور ہائی کورٹ کے پاس کردہ کسی بھی حکم کے تابع ہوگا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اس حکم سے القادر ٹرسٹ کے معاملے میں نیب کی جانب سے کی جا رہی تحقیقات کی کارروائی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔