بے فیض پاکستانیز

جمعرات 28 اگست 2025
author image

عباس سیال، سڈنی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سڈنی میں میرے ایک قریبی دوست ہیں، سہیل بھائی۔ وہ خود کو فیصل آبادی کہتے ہیں، مگر میں انہیں ہمیشہ ’لائل پوری‘ کہہ کر پکارتا ہوں، کیونکہ وہ شریف النفس اور لائل انسان ہیں۔

ملکی سیاست میں ہمارے نظریات یکسر مختلف ہیں۔ وہ خان صاحب کے دیوانے ہیں اور میں پاکستان کی ساری شخصی قیادت کا سب سے بڑا ناقد۔

مگر اختلاف کے باوجود ہم ایک دوسرے کی بے پناہ عزت کرتے ہیں اور کبھی کبھار ایک دوسرے کے ساتھ الجھ کر سیاسی اختلافات کا بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ سب فطری ہے، کیونکہ ہم باشعور انسان ہیں، اور ایک دوسرے کو سپیس دینا جانتے ہیں۔

گزشتہ شب میں سہیل کے ہاں ڈنر پر مدعو تھا۔ کھانے کے دوران پاکستان سے ان کے کزن کا فون آیا، جو اپنے بیٹے کے مستقبل کے حوالے سے کافی فکرمند تھے اور آسٹریلیا کے بارے میں معلومات مانگ رہے تھے۔

سہیل نے فون پر انہیں باور کرانے کی کوشش کی کہ یہاں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور سیٹل ہونا انتہائی مشکل ہے۔ آسٹریلیا کا ویزہ حاصل کرنا دنیا کے پیچیدہ چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔

آخر میں سہیل بھائی نے اپنے کزن کو کہا ’یہاں پر ہم کون سے چونسے چوس رہے ہیں؟ یہاں کی زندگی بہت مشکل ہے، اور پھر یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔ ایک دم مجھے ایسا لگا جیسے دنیا کا سب سے قیمتی راز کسی نے چھپالیا ہو‘۔

کھانا کھانے کے بعد ہم چائے کی پیالیاں پکڑ کر گھر کے اوپر والے پورشن پر آگئے۔ کھڑکی کے باہر برستی بوندا باندی کے مزے لیتے ہوئے میں نے اپنے دوست سے کہا، ’یار، تم اپنے کزن کو درست باتیں بتا رہے تھے، لیکن ساتھ میں اس کی حوصلہ شکنی بھی کر رہے تھے۔ حقیقت یہ بھی تو ہے کہ ہم دنیا کے بہترین ملک میں جی رہے ہیں۔ یہاں پر امن ہے، سکون ہے، روزگار، علاج معالجہ اور بچوں کا مستقبل روشن ہے۔

ہم یہاں آم نہیں، بلکہ آموں کی پوری ٹوکری انجوائے کر رہے ہیں۔ لہذا ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی یہاں پر آئیں اور ایک بہتر سماج کا حصہ بنیں۔

ہم بھی کبھی ٹرک سے لٹک کر نہیں آئے تھے بلکہ کسی نہ کسی دوست، کزن یا جاننے والے کی رہنمائی سے یہاں تک پہنچے تھے۔ اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ دوسروں کو بھی راستہ دکھائیں، چاہے وہ سٹوڈنٹ ویزے پر آئیں یا کسی اور طریقے سے۔‘

میری باتیں سن کر سہیل  مسکرائے اور بولے، ’اگلی بار اگر کسی نے معلومات مانگی، تو میں تمہارا نام ریفر کروں گا۔‘

میں نے بھی ہنس کر جواب دیا، ’مجھے کوئی اعتراض نہیں، اگر میں کسی کی رہنمائی کرسکوں تو یہ اچھی بات ہے۔‘

سہیل  کے گھر سے واپس آکر میں اپنے پرسکون کمرے میں جا بیٹھا۔ باہر بارش کی بوندیں مسلسل گر رہی تھیں، اور اگست کی بارش نے گزشتہ سارے اگستوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔

اس موقع پر میں نے اللہ کا شکر اداکیا کہ ہم لاکھوں اوورسیز پاکستانی یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے معاشروں میں خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، مگر افسوس کہ یہاں رہ کر بھی ہم اپنی سوچ نہیں بدل سکے۔

سیکولر معاشرے میں زندگی گزارنے کے باوجود ہم اپنی زبان اور کلچر کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کی بجائے انہیں  کلمہ پڑھانے پر بضد ہیں اور توہم پرستی سے کوسوں دور ایک جمہوری ماحول میں بھی ہم سب نے اپنی ذات کے اندر شخصیت پرستی کا کنواں کھود رکھا ہے جہاں پر آنکھوں پر پٹی باندھے بریک فیل موٹر سائیکل کو اندھا دھند بھگا رہے ہیں۔

 ہمارے ہاں ہر سال کرسمس کی آمد پر بحث چھڑ جاتی ہےکہ ’فلاں مسلمان نے اپنے عیسائی ہمسائے یا کولیگ کو ہیپی کرسمس کیوں کہہ دیا؟‘

ہم جہاں بھی رہیں۔ ملک اور مقام اتنا اہم نہیں بلکہ سب سے اہم بات یہ کہ ہم سوچتے کس طرح ہیں۔ خوشحالی صرف مال و دولت یا مادی سہولیات کا نام نہیں، بلکہ راستہ دکھانے، علم بانٹنے اور دوسروں کی رہنمائی کرنا اصل میں ذہنی خوشحالی اور فکری کشادگی کا نام ہے اور ہماری ذاتی ترقی تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی ذات کے اندھیروں سے نکل کر دوسروں کے لیے روشنی بنیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب کوئی زندہ معاشرے کی طرف جانے کے لیے معلومات  یا  مشورہ مانگے تو اسے راستہ دکھائیں اور جتنا ممکن ہو سکے گائیڈ کریں۔  ہماری زندگی کا مقصد صرف اپنی بقا نہیں۔ حکیم کے نسخے کی طرح قبر میں اتر جانے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اس نسخے کو سب کے ساتھ شیئر کرکے دنیا سے رخصت ہوں۔

’ہم یہاں پر کون سے چونسے چوپ رہے ہیں؟‘ یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں، مگر بتانا نہیں چاہتے۔ مبادا کوئی ہمارا رزق نہ چھین لے۔

ہم اوورسیز پاکستانیوں کا یہی المیہ ہے کہ ہم خوشحالی اور سہولیات سے بھرپور، مگر دل و دماغ کی کشادگی میں کہیں پیچھے ہیں ۔ ہم دنیا کے بہترین ممالک میں زندگی گزارنے کے باوجود اپنی سوچوں کی سرنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp