امریکا کی جانب سے دنیا کے کئی ممالک پر اضافی ٹیرف عائد کردیا گیا ہے، بات کی جائے پاکستان اور بھارت کی تو اس وقت پاکستان پر 19 جبکہ بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔
بھارت پر 50 فیصد ٹیرف کا مطلب ہے کہ امریکا جانے والے بھارتی مصنوعات اب مہنگی ہو جائیں گی اور امریکی مارکیٹ میں متبادل سستی اشیا کی جانب عوام راغب ہوں گے، کیا پاکستان اس موقع کے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
معاشی ماہر سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو اس صورت حال سے بہت فائدہ لے سکتی ہے، ہمارے ہاں تو بہت مسائل ہیں انرجی کرائیسس ہے، یہ ایک سنہری موقع ہے، حکومت کو مینوفیکچررز کو سہولیات دینا ہوں گی اس سے پاکستان میں تیار کردہ اشیا امریکا کی مارکیٹ پہجچ پائیں گی۔
مزید پڑھیں: بھارت پر 50 فیصد ٹرمپ ٹیرف آج سے نافذ، سب سے زیادہ کون سے شعبے متاثر ہوں گے اور فائدہ کس ملک کو ہوگا؟
سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل، ادویات، سرجیکل آئٹمز میں آئی ٹی میں ہم بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ہمیں امپورٹ کرنا پڑے گا، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ملک ترقی کرتا ہے امپورٹ بڑھتی ہے تو پھر ہم بیٹھ جاتے ہیں۔
پاکستان کی پالیسی ایسی ہے کہ ہم سب کچھ امپورٹ کر رہے ہیں ہمیں خود انحصاری کے فارمولے پر چلنا ہوگا ورنہ یہی مسئلہ ہوگا کہ کمائی کم ہوگی اور خرچ زیادہ، ہمیں مینیج کرنا پڑے گا اگر باہر سے کوئی آرڈر آتا ہے تو پھر ڈالرز بھی آجاتے ہیں۔
سینئر صحافی تنویر ملک نے وی نیوز کو بتایا کہ بھارت پر امریکی 50 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روس سے بھارت جو تیل کی مصنوعات لینے کے بعد ریفائن کرکے اسے انٹرنیشنل مارکیٹ کو دیتا ہے اس سے جو رقم روس کو ملتی ہے وہ یوکرین کے خلاف جنگ میں استعمال ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: 50 فیصد ٹرمپ ٹیرف نافذ سے ہونے سے پہلے ہی بھارتی کاروباری طبقہ بدترین بحران سے دوچار
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ اس کے مقابلے پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد ہوا ہے، صدر ٹرمپ سے قبل پاکستانی مصنوعات پر 17، 18 یا کچھ پر 19 فیصد لگتا تھا، اس وقت پاکستان کو ایک ایڈوانٹیج تو حاصل ہو گیا ہے کیوں کہ بھارت پر لگایا گیا ٹیرف پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، اب پاکستانی اشیا وہاں بھارت کے مقابلے میں سستی جائیں گی۔
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ اب سوال یہ کہ کیا واقعی پاکستانی مصنوعات میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ انکی اتنی ڈیمانڈ ہو؟ تنویر ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی اس وقت بہت سے مسائل ہیں، جیسے کہ انرجی کرائسز پاکستان میں زیادہ ہیں، کاسٹ آف پروڈکشن زیادہ ہے، پراڈکٹ ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری بھی نہیں کی گئی تاکہ اشیا میں بہتری آسکے، نہ برانڈنگ ہوئی نہ ہی جدت لائی گئی۔
پاکستان کے پاس ٹیکسٹائل پراڈکٹس ہیں جو امریکا جا رہے ہیں، اس میں پاکستان کے لیے یہ مارجن ہوسکتا ہے کہ امریکا کے ساتھ ہماری ایکسپورٹ بڑھ جائے بھارت کے مقابلے میں، لیکن ٹیکسٹائل میں پاکستان کا مقابلہ بنگلہ دیش اور ویت نام سے ہیں، ان ممالک پر بھی پاکستان کے مقابلے کیں زیادہ ٹیرف لگا ہے لیکن بنگلہ دیش میں کاسٹ آف پروڈکشن پاکستان سے کم ہے، پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتیں بنگلہ دیش سے زیادہ ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت میں مذہبی میلے کے دوران ٹرمپ کا پتلا اٹھاکر اضافی ٹیرف کیخلاف انوکھا احتجاج ریکارڈ
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی پروڈکشن نہیں بڑھ رہیں، مینوفیکچرنگ سیکٹر جمود کا شکار ہے، مسائل بہت ہیں، اگر تو امریکی مارکیٹ میں رہنا ہے تو پروڈکشن بڑھانا پڑے گی، اگر پروڈکشن بڑھتی ہے تو فائدہ یہ ہے کہ ایک تو امریکا بڑی آبادی والی مارکیٹ ہے دوسرا یہ کہ وہ زیادہ قیمتوں پر اشیا خریدتے ہیں کیوں کہ امریکی عوام کی قوت خرید زیادہ ہے۔
پاکستان کو ایڈوانٹیج حاصل تو ہوا ہے لیکن اس سے پاکستان کس حد تک فائدہ اٹھا سکے گا یہ بڑا سوال ہے، کووڈ کے عرصے میں جب بنگلہ دیش اور بھارت بند ہوگیے تھے اس عرصے میں پاکستان میں اچھی پروڈکشن ہوئی تھی، آخری بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کو صنعتی پیداوار بڑھانی پڑے گی تو پاکستان کی امپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا کیوں کہ ہم خام مال باہر سے منگواتے ہیں۔