اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے لاہور پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان نے لاہور میں زیر سماعت مقدمات میں حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہوا ہے۔
اس کیس میں جسٹس طارق محمود جہانگیری سماعت کر رہے ہیں۔ عمران کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ درخواستوں پر اعتراضات دور کر دیے ہیں۔
سلمان صفدر کے مطابق عمران خان اپنے کارکن کے قتل کی خود پیروی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن خود انہی کو ملزم بنا دیا گیا۔
سلمان صفدر اس وقت ظل شاہ قتل کی ایف آئی آر پڑھ رہے ہیں۔ ظل شاہ کیس میں دس روز کے لیے عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کی ہے۔ ظل شاہ قتل کیس میں 50 ہزار کے مچلکوں پر ضمانت منظور کی گئی ہے۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ 9 مئی کو ہونے والے واقعات کے حوالے سے بھی حفاظتی ضمانت منظور کی جائے۔
اس حوالے سے ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر بینچ میں شامل ہیں۔
سلمان صفدر نے استدعا کی ہے کہ ہمیں 9 مئی کے بعد درج ہونے والے تمام مقدمات میں ضمانت چاہیے۔
اس موقع پر عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ آپ نے تین مقدمات میں ضمانت کی درخواست دائر کی ہے۔ آپ کی حکومت نے جاوید لطیف کے خلاف لاہور اور پشاور میں مقدمات بنائے، ہم نے تب بھی روکا، اب بھی روک رہے ہیں۔دونوں طرف ایک ہی کام ہے۔
عدالت نے عمران خان کو پیر تک کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے روک دیا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ کوئی خفیہ مقدمہ ہو اس میں بھی گرفتار نہ کیا جائے۔تحریری حکم نامے تک عمران خان کمرہ عدالت میں رہیں گے۔
عمران خان کے ضمانتی مچلکے تیار ہو چکے ہیں جو کچھ دیر میں جمع کرا دئیے جائیں گے۔
اس موقع پر عمران خان نے کمرہ عدالت میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اندر ہوں گا تو عوام کو کون کنٹرول کرے گا، باہر ہوں گا تو لوگوں کو کنٹرول کر پاؤں گا۔
رانا ثناء اللہ نے بیان دیا کہ مجھے گرفتار کریں گے،اگر ایسا ہوا تو حالات قابو میں نہیں رہیں گے۔
عدالت نے پیر تک کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے روک دیا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ کوئی خفیہ مقدمہ ہو اس میں بھی گرفتار نہ کیا جائے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ سے زمان پارک لاہور جائیں گے۔ اسلام آباد سے لاہور تک کارکنان اور سپورٹرز چئیرمین عمران خان کے ہمراہ ہوں گے
زمان پارک میں بھی لاہور کے کارکنان اور اسپورٹرز اپنے لیڈر سے اظہار یکجہتی کے لیے موجود ہوں گے۔
ان سارے حالات کا ذمہ دار آرمی چیف ہے، عمران خان:یہ بھی پڑھیں
قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے القادر ٹرسٹ اراضی کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی 2 ہفتے جب کہ دیگر تمام مقدمات میں 17 مئی تک ضمانت منظور کرلی ہے۔
ضمانت کی درخواستوں پر سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی ڈویژنل بینچ نے کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 9 مئی کے بعد عمران خان کے خلاف درج تمام مقدمات میں ضمانت منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو سابق وزیر اعظم کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
دو رکنی بینچ نے عمران خان کو 17 مئی تک کسی نئے مقدمہ میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقدمات کی سماعت آئندہ جمعرات کو ہوگی۔
القادر ٹرسٹ اراضی کیس میں ضمانت کی درخواست پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ ملزم کو ضمانت کی درخواست دائر کرنے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ نیب کی انکوائری رپورٹ بھی موصول نہیں ہوئی جب کہ نیب کی انکوائری کی انویسٹٰ گیشن میں تبدیلی کا بھی اخبارات سے علم ہوا۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب کی انکوائری رپورٹ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی، نیب نے عمران خان کی انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا۔ نئی نیب ترمیم کے بعد صرف انوسٹی گیشن میں وارنٹ جاری کیے جا سکتے ہیں۔وارنٹ گرفتاری ملزم کی ملسل عدم حاضری پر جاری کیے جا سکتے ہیں۔
’نیب نے انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کیا لیکن انکوائری رپورٹ فراہم نہیں کی۔ ہمیں خدشہ تھا کہ عمران خان کو انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کر کے فوری گرفتار کر لیا جائے گا۔‘
یہ بھی پڑھیں:وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صدر مملکت اور چیف جسٹس کے رویے کی شدید مذمت، اعلامیہ جاری
خواجہ حارث کے مطابق نیب قانون میں ترامیم کے بعد انکوائری کو انوسٹیگیشن میں تبدیل کرنے سے قبل انکوائری رپورٹ ملزم کو فراہم کرنا ضروری ہے، جسے ملزم عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی حق رکھتا ہے۔ انکوائری رپورٹ گرفتاری کے بعد ملزم کو دوران حراست دی گئی اور وارنٹ گرفتاری بھی دوران حراست ہی دکھایا گیا۔
خواجہ حارث کے مطابق نیب کی جانب سے 2 مارچ کو موصول ہونیوالے انکوائری کے پہلے کال اپ نوٹس کے جواب میں لکھا کہ کال آپ کا نوٹس نیب قانون کے سیکشن 19 کی شق ای کے مطابق نہیں ہے۔ اس جواب کے بعد نیب نے کوئی نوٹس نہیں دیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ کیا عمران خان اس نوٹس پر نیب کے سامنے پیش ہوئے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عمران خان پیش نہیں ہوئے، جواب جمع کرایا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ عمران خان نیب کی طلبی پرپیش نہیں ہوئے؟ کیا انہوں نے نیب کا نوٹس کسی عدالت میں چیلنج کیا؟ آپ کو معلوم ہے کہ پیش نہ ہونے پر نوٹس چیلنج کیا جاتا ہے؟
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں 2 نوٹسز بھیجے تھے لیکن القادر ٹرسٹ کیس میں ایک ہی نوٹس بھیجا تھا، جس کے جواب کے بعد نیب نے دوبارہ نوٹس جاری نہیں کیا تو معاملہ ختم سمجھا گیا۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عدالت کا دائرہ اختیار چیلنج کر تے ہوئے کہا کہ یہ نیب کا کیس ہے ملزم نے اس عدالت سے رجوع کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی۔ نیب عدالت چند گز کے فاصلے پر ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کا نفاذ ہے جس کے بعد ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار ختم ہو جاتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا اس وقت ملک میں مارشل لا لگا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی اورگزارشات پیش کریں یہ باتیں نہ کریں یہاں۔
پروسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نیب کی کسی انکوائری میں پیش نہیں ہوئے۔ اس کیس میں پانچ ملزمان نے انکوائری میں تعاون کیا۔ ملک ریاض، محمد میاں سومرو، فیصل واوڈا اور زلفی بخاری انکوائری میں شامل ہوئے جب کہ بیرون ملک مقیم شہزاد اکبر اب تک انکوائری میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔
عمران خان کی قانونی ٹیم نے عدالت سے تمام مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں کو یکجا کر کے سننے کی استدعا کی ہے۔
وقفہ سے قبل کمرہ عدالت میں نعرے بازی پر ججز نے برہمی کا اظہار کیا، اس موقع پر عمران خان کے وکلا کا موقف تھا کہ نعرہ لگانے والے وکیل سے کوئی تعلق نہیں۔ اسے حراست میں لے لیں۔
عمران خان نے ایڈووکیٹ جنرل سے معافی کیوں طلب کی؟
سماعت سے قبل دونوں فریقین کے وکلا میں شدید لفظی جنگ شروع ہوگئی جس پر عمران خان نے اپنے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احتیاط کریں اس سے قبل بھی ایک پلانٹڈ شخص کی وجہ سے سماعت ملتوی ہوگئی۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون عمران خان برس پڑے اور بولے؛ یہ نہ کہیں وہ آپ کا ہی آدمی ہے۔
اس کے بعد جہانگیر جدون کے بیٹے اور عمران خان کے وکلا کی ٹیم کے ایک رکن میں پھر تکرار ہونے پر عمران خان نے جہانگیر جدون سے معافی طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جہانگیر جدون کو نہیں کہہ رہے تھے۔
عمران خان کی لیگل ٹیم کے رکن بیرسٹر گوہر کو بھی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں ملی۔ رینجرز نے صحافیوں کو بھی کمرہ عدالت جانے سے روک دیا۔
سماعت کے آغاز پر وکلا اور صحافیوں سے بد تمیزی کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ رینجرر اہلکاروں کا موقف تھا کہ انہیں اوپر سے آرڈر آیا ہے کہ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دینی۔
پولیس گیسٹ ہاؤس سے عمران خان ایس ایس پی آپریشنز کی نگرانی میں سخت سیکیورٹی انتظامات میں اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچنے کے بعد رینجرز نے انہیں ہائیکورٹ کے ڈائری برانچ کے بائیو میٹرک سیکشن پہنچایا، جہاں سے انہوں اپنا بائیو میٹرک کروالیا ہے۔
کورٹ روم نمبر 3 میں گنجائش سے زیادہ افراد کی موجودگی پر بم ڈسپوزل اسکواڈ نے کمرہ عدالت خالی کرالیا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے رجسٹرار آفس میں کمرہ عدالت تبدیل کرنے کی درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ سماعت بڑے کمرے میں کی جائے۔
چیکنگ کے بعد بھی کورٹ روم نمبر 3 میں بد نظمی کے باعث ابھی تک سماعت شروع نہیں کی جاسکی ہے۔ بائیومیٹرک کروانے کے بعد عمران خان گزشتہ ایک گھنٹےسے کورٹ روم نمبر 2 میں موجود ہیں۔
مجھے گرفتار کیا گیا تو دوبارہ وہی رد عمل آئے گا، عمران خان
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے وکیل حامد خان سے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو خبردار کرتا ہوں آپ تیاری کر لیں مجھے دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے پولیس باہر کھڑی ہے۔ دوبارہ گرفتار کیا گیا تو وہی رد عمل آئے گا جو پہلے آیا۔ عمران خان نے وکیل حامد خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ دوبارہ ایسی صورت حال پیدا ہو۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے ہائیکورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس سارے عمل کا ذمہ دار آرمی چیف ہے، ملک میں جنگل کا قانون ہے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے مارشل لا لگا ہوا ہے۔
’جو کچھ میرے ساتھ ہوا اس پر نالاں ہوں، لیکن اقتدار میں آیا تو کسی کے ساتھ انتقامی کارروائی نہیں کروں گا۔‘
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ کسی صورت ملک سے باہر نہیں جاؤں گا، ملک میں آئین و قانون کی بالادستی چاہتا ہوں۔ میرے 5 ہزار کارکنان کو پکڑا گیا چالیس لوگوں کی جانیں گئی ہیں وہ ہمارے لوگ ہیں۔ یہ کہتے ہیں مجھے ریلیف دیا گیا ہے، انہوں نے میرے ساتھ جو سلوک کیا ایسے لگتا ہے جیسے جنگل کا قانون ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ کے احاطے میں میرے سر پر ڈانڈا مارا کر اغوا کیا گیا میں پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ ہوں، ایسے پکڑ کر گرفتار کیا گیا جیسے دہشتگرد ہوں۔
’جو کچھ ہوا میں کیسے روک سکتا تھا میں تو جیل میں تھا میں کیسے ذمہ دار ہوں، پہلے ہی کہا تھا کہ ری ایکشن آئے گا۔‘
عمران خان کا دوبارہ گرفتاری کے خدشہ کا اظہار
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر کورٹ نمبر 2 کے باہر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران عمران خان نے اپنی دوبارہ گرفتاری کے خدشہ کا اظہار 100 فیصد یقین کے ساتھ کیا۔
اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے سوال پر عمران خان خاموش رہے۔ تاہم سوال دوہرائے جانے پر انہوں نے صحافی کو مسکراتے ہوئے انگلی کے اشارے سے چپ رہنے کا کہا۔
غیر رسمی گفتگو کے دوران ایک اور صحافی نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ کو اہلیہ سے بات کرنے کی اجازت دی گئی تھی جواب میں عمران خان نے کہا کہ ہاں عدالت نے تو اجازت دی تھی لیکن بات ہو نہیں سکی۔
موقع پر موجود ایک اور صحافی نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو فون بشری بی بی سے بات کرنے کے لیے دیا گیا اور آپ نے مسرت چیمہ کو ملا دیا۔ جواب میں عمران خان نے مسکراتے ہوئے بولے؛ نہیں وہ لینڈ لائن سے ملایا تھا۔
نیب کی ٹیم عمران خان کی ضمانت کی مخالفت پر تیار
ڈپٹی پروسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کی قیادت میں نیب کی ٹیم اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود ہے دوسری جانب ڈی آئی جی لیگل کامران عادل کی سربراہی میں پنجاب پولیس کی ٹیم بھی اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق نیب نے آج ہی عمران خان کی درخواستِ ضمانت کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیب تفتیش مکمل کرنے کے لیے آج ہی عمران خان کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی جائے گی۔
عمران خان کی پیشی پر سخت سیکیورٹی انتظامات
عمران خان کی پیشی کے موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ارد گرد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں بیشتر داخلی راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا ہے تاکہ ہائیکورٹ میں آمدو رفت کو محدود کرتے ہوئے مانیٹر کیا جاسکے۔
ہائیکورٹ کی عمارت سے تقریباً چار کلو میٹر دور پولیس ہیڈکوارٹرز کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم سابق وزیر اعظم عمران خان کی آج پیشی سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے راستوں کو کنٹینر لگاکر بند کردیا گیا ہے اور ہیلی کاپٹر سے مسلسل فضائی نگرانی کی جارہی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دونوں صدر دروازوں پر سخت سیکیورٹی تعینات ہے، ہائیکورٹ کے عقبی راستے کو مکمل سیل جب کہ ہائی کورٹ کے باہر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
فرنٹیئر کانسٹیبلری اور اسلام آباد پولیس کی ٹیمیں سرینگر ہائی وے سمیت عدالت کےاطراف تعینات کی گئی ہیں۔
اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے۔
عوام سے گذارش ہے کہ قانونی عمل میں رکاوٹ نہ بنیں۔
اسلام آباد پولیس قیام امن عامہ کو یقینی بنانے کےلئے مصروف عمل ہے۔
شہریوں سے گذارش ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اطراف میں جانے سے گریز کریں۔#ICTP
— Islamabad Police (@ICT_Police) May 12, 2023
توشہ خانہ کیس منتقلی کی درخواست پر سماعت
القادر ٹرسٹ اراضی کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے پیشی سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں فوجداری کارروائی پر حکمِ امتناع جاری کر تے ہوئے ٹرائل کورٹ کو کارروائی سے روک دیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق کے روبرو دلائل دیتے ہوئے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ توشہ خانہ کیس کے لیے شکایت مجاز اتھارٹی کے بجائے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
’الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی کو مجاز اتھارٹی مقرر کرنے کا کوئی لیٹر پیش نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن نے صرف اپنے آفس کو شکایت درج کرنے کا کہا، مجاز اتھارٹی کے بغیر دائر شکایت پر سماعت نہیں ہو سکتی۔‘
خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے مذکورہ اعتراض اٹھانے پر عدالت نے معاملہ شہادتوں کے مرحلے پر دیکھنے کا کہا جب کہ یہاں تو اس معاملہ پر مزید کارروائی ہی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے ریکارڈ کے ساتھ جو دستاویزات پیش کی ہیں وہ اس پر ہی انحصار کررہے ہیں۔
خواجہ حارث کا موقف تھا کہ معاملہ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ شکایت مقررہ وقت کے بعد دائر کی گئی، توشہ خانہ کیس میں فوجداری کارروائی پر حکمِ امتناع بھی جاری کیا جائے۔
جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں فوجداری کارروائی پر حکمِ امتناع جاری کر دیا۔
عمران خان کی گرفتاری، سپریم کورٹ کی جانب سےغیر قانونی قرار
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو آج دن 11 بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ضمانت کے لیے پیش ہونا تھا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز ان کی رہائی کے احکامات جاری کرتے ہوئے انہیں آج ہائیکورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو 9 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا تھا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے عمران خان کی رہائی کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ گیسٹ ہاؤس میں رات گزاریں، گپ شپ لگائیں، سو جائیں، صبح عدالت میں پیش ہوجائیں، 10افراد بھی اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں، تاہم ان کی لسٹ فراہم کر دیں۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہم نے آپ کو ایکسٹرا ریلیف دیا ہے، اس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا آپ کو ماننا ہوگا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اس سے قبل عمران خان کی عدالتی احاطہ سے گرفتاری کو قانونی قرار دے چکا ہے۔