مظہر علی خان اور بیٹے کے آنسو

اتوار 31 اگست 2025
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ممتاز دانشور اور لکھاری طارق علی نے ’یو کانٹ پلیز آل‘ کے عنوان سے یادداشتوں میں اپنے والد اور پاکستان ٹائمز اور ویو پوائنٹ کے سابق ایڈیٹر مظہر علی خان کے بارے میں بھی ایک باب لکھا ہے۔ یہ کتاب طارق علی کی 1980 سے 2024 کے عرصے پر پھیلی ہوئی یادوں پر مشتمل ہے۔ اس کے جس حصے کو میں نے بڑی دلچسپی سے پڑھا وہ باپ کی بیٹے کو مطالعے کی طرف مائل کرنے کی کوششوں کے بارے میں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عالی دماغ کی ذہنی پرداخت میں اس کے بچپن کا ماحول کس قدر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس داستان میں مال روڈ پر پنجاب رلیجیس بک سوسائٹی سے طارق علی کے ناول چرانے کا قصہ بھی درج ہے جہاں انگریزی ناولوں کا بہترین ذخیرہ ہوتا تھا۔ ناول چوری پکڑے جانے پر ان کے خلاف تادیبی کارروائی یہ ہوئی کہ ان کے والد کو خبر کردی گئی جنہوں نے بیٹے کے اس فعل پر برافروختہ ہو کر اسے پھینٹی لگائی جس کے لیے مادرِ مہربان نے اپنا ہئیر برش ان کے ہاتھ میں دیا تھا۔ مظہر علی نے بیٹے سے پوچھا: ’کیا میں نے تم کو کبھی کتابیں خریدنے کے لیے پیسے دینے سے منع کیا ہے؟‘ طارق علی کے لیے یہ وضاحت کرنی مشکل تھی کہ کتابیں چرانے کے پیچھے یہ وجہ نہیں تھی لیکن اپنے عمل کی کوئی تاویل بھی وہ پیش نہیں کرتے کہ آیا یہ ناولوں کی چاٹ تھی جس نے انہیں چوری پر اکسایا یا کچی عمر کا ایک ایڈونچر۔ اس واقعہ سے پہلے انہوں نے ایک دوست کی مدد سے سکول رپورٹ میں جعل سازی کی تھی جو ان کے والد نے پکڑ لی اور پھر بیٹے سے ایک ہفتہ کلام نہیں کیا تھا۔

یہ تو بچپن کے شرارتی طارق علی کا چہرہ ہے جسے انہوں نے چھپایا نہیں۔ اب باپ سے کتابوں کے تعلق سے ان کے روابط کا جائزہ لیتے ہیں۔ طارق علی نے لکھا ہے کہ انہوں نے اسکول سے زیادہ اپنے والد کی لائبریری سے سیکھا۔

ان کے ہاں غالب، اقبال اور فیض کو باآواز بلند پڑھا جاتا تھا جس کے بعد ان کے کلام کی شرح کی جاتی۔

اسی طرح شکسپیئر کے ڈراموں کی ریڈنگ بھی ہوتی تھی۔

طارق علی نے لکھا ہے کہ 12 سال کے تھے تو والد نے ہارڈی اور 16 برس کی عمر میں اپنے آل ٹائم فیورٹ ٹالسٹائی کو پڑھنے پر مجبور کیا۔ یہ تو فکشن کی بات تھی نان فکشن میں مظہر علی خان کے خیال میں گبن سے اوپر کوئی نہیں تھا۔ وہ اس ’ماسٹر‘ کو بار بار پڑھتے اور اکثر بیٹے کو بھی پیراگراف پڑھ کر سناتے لیکن گبن ان کے سر سے گزر جاتا کیونکہ اسے سمجھنے کے واسطے ان کے پاس مطلوبہ ذہنی استعداد نہیں تھی۔ آگے چل کر 24 برس کی عمر میں انہوں نے گبن کا مطالعہ کیا تب سمجھ میں آیا کہ ان کے والد کو اس کا خبط کیوں تھا۔ ان کے خیال میں گبن کا تاریخ پر حیران کن کام ہے اور آج بھی اس لائق ہے کہ آپ کے دماغ کو انگیخت کر سکے۔ وہ گور ویدال کے ناول ‘جولین’ کی مثال دیتے ہیں جسے ان کے خیال میں گبن کے بغیر نہیں لکھا جاسکتا تھا اور یہ تاریخ کے ادب پر اثر کی اچھی مثال ہے۔

طارق علی نے گبن کے اسلوب بیان کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کی دانش کی تابندگی اور چرچ اور سرکاری تاریخ دانوں کو بھرپور طریقے سے چیلنج کرنے کا بھی لکھا ہے۔

ان کا یہ بیان پڑھ کر میرا ذہن آغا افتخار حسین کی کتاب ‘قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ’ کی طرف منتقل ہوا جس کے ذریعے میں پہلی دفعہ گبن کے نام اور کام سے واقف ہوا تھا۔ یہ تصنیف سلطنت روما کے زوال سے شروع ہوتی ہے، اس میں گبن کی کتاب کا حوالہ آتا ہے اور مصنف اس کا یہ مشہور قول بھی نقل کرتے ہیں: ’میں نے مملکت روما کے زوال کی تاریخ میں مذہب اور بربریت کی فتح کی داستان بیان کی ہے۔‘ اس قول کی صراحت میں وہ بات آجاتی ہے جس کی طرف اوپر طارق علی نے اشارہ کیا ہے۔ آغا افتخار حسین لکھتے ہیں:

’گبن کا یہ جملہ طنز اور بے رحم حقیقت پسندی کی وجہ سے ایک کلاسیکی جملہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ گبن نے اپنی مشہور کتاب ‘ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن امپائر’ میں مملکتِ روما کے زوال کے اسباب میں مسیحیت کی غلط تعبیر کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اہل کلیسا پر جا بہ جا ایسا لطیف طنز کیا ہے کہ بہت سے مذہبی رہنما اور مؤرخین گبن سے خفا رہے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔‘

طارق علی نے بتایا ہے کہ آکسفورڈ میں انہوں نے ہارڈی کی تمام لکھت بشمول شاعری کو جم کر پڑھا۔ گبن کی طرح ہارڈی کو پڑھنے کے لیے انتظار بھی ان کے لیے سود مند ثابت ہوا۔ مقامی دیہی زندگی کے مشاہدے نے ہارڈی کے مطالعے کا لطف کچھ اور ابھی بڑھا دیا۔

طارق علی نے مطالعے کی طرح لکھنے کی صلاحیت بھی باپ سے ورثے میں پائی جسے انہوں نے بہت ترقی دی۔ فکشن اور نان فکشن میں ان کی تصانیف کا دنیا بھر میں چرچا ہوا۔ مظہر صاحب نے کتابیں پڑھنے سے سروکار رکھا اور صحافی کے طور پر ممتاز مقام حاصل کیا۔ طارق علی نے لکھا ہے کہ پاکستان اور تقسیم سے پہلے کے انڈیا کے بارے میں انہیں بہت علم تھا اس لیے وہ اکثر ان سے کتابیں لکھنے کے لیے کہتے مگر وہ سمجھتے تھے کہ ان کے پاس اتنا زیادہ کچھ نہیں ہے کہ پوری کتاب لکھی جا سکے۔

طارق علی کی یہ بات درست ہے کہ مظہر علی خان کو کتاب لکھنی چاہیے تھی لیکن اس کی کچھ حد تک تلافی یوں ہوئی کہ پاکستان ٹائمز کے اداریے اور ویو پوائنٹ کے اداریے اور کالم بالترتیب ’پاکستان دا فرسٹ ٹویلیو ائیر‘ اور ’پاکستان دا بیرن ائیرز‘ کے عنوان سے الگ الگ کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ یہ پاکستان کے 29 برسوں کی تاریخ کا بے مثل اور بے لاگ ریکارڈ ہے خاص طور پر ضیاالحق کی ڈکٹیٹر شپ میں قوم کا مقدمہ مظہر علی خان نے جس دلیری اور پیشہ ورانہ مہارت سے لڑا وہ پاکستانی صحافت کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔

پاکستان ٹائمز کے اداریے اس لیے اہم ہیں کہ وہ وطن عزیز کے ابتدائی 12 برس کی تاریخ ہیں اور اس باوقار لکھاری کے قلم سے نکلے ہیں جنہوں نے اپنے زیر ادارت اخبار کو جنوبی ایشیا میں انگریزی کا ممتاز اخبار بنایا اور ایوب خان کی فوجی حکومت کے اخبار پر قبضے کے بعد ایک دن بھی اس کا ایڈیٹر رہنا گوارا نہیں کیا تھا۔

میرے خیال میں طارق علی کی پاکستانی تاریخ کے بارے میں کتابوں کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن ان کے مقابلے میں مظہر علی خان کی صحافیانہ نگارشات کو سامنے رکھا جائے تو ان کا پلڑہ بھاری رہے گا کیونکہ انہوں نے اس دھرتی اور اس کے باسیوں کے درمیان کڑے موسموں میں رہتے ہوئے انہیں رقم کیا تھا۔

مظہر علی خان اور طارق علی میں ایک قدر مشترک ان کی طلاقت لسانی ہے۔ اس کے لیے ہمیں طارق علی کی کتاب کے دائرے سے نکل کر باپ بیٹے کی تقریر کی لذت کے بارے میں خالد احمد کے مختصر اور مختار مسعود کے قدرے تفصیلی بیان سے گزرنا ہوگا۔

خالد احمد نے گورنمنٹ کالج کے ایک مذاکرے میں مظہر و طارق کو بولتے سنا تو ان کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہو گیا کہ دونوں میں بہتر مقرر کون ہے۔

اب آجاتے ہیں صاحب طرز نثر نگار مختار مسعود کی ’حرف شوق‘ کی طرف جس میں مظہر علی خان کے طالب علمی کے دور میں ایک ممتاز مقرر ہونے کی خبر ملتی ہے۔

مختار مسعود نے لکھا ہے کہ ان دنوں مباحثوں میں سب سے بڑا اعزاز یہ ہوتا تھا کہ کوئی طالب علم کسی اہم تعلیمی ادارے کے سالانہ مباحثے میں مسلسل تین سال پہلی پوزیشن حاصل کرکے انعام اور ٹرافی حاصل کرے۔ مختار مسعود کے بقول ’تیسرے سال جیتنے کے بعد ٹرافی اس مقرر کی ملکیت قرار دی جاتی اور متعلقہ ادارہ نئی ٹرافی بنوا لیتا۔ یہ اعزاز شاذونادر ہی کسی مقرر کو حاصل ہوتا اور اس کا نام مباحثوں کی زبانی تاریخ کے افسانوی ہیرو کے طور پر ایک طویل عرصے کے لیے محفوظ ہو جاتا۔ 1920 میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنے سے لے کر برعظیم کی آزادی تک 27 سال کے عرصے میں یہ امتیاز میرے علم کے مطابق علی گڑھ کے سالانہ انگریزی مباحثے کے صرف ایک طالب علم کو حاصل ہوا تھا۔ اس کا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور سے تھا۔ نام مظہر علی خان تھا۔‘

مختار مسعود نے اس کہانی میں طارق علی کو بھی شامل کیا ہے۔ پچاس کی دہائی میں وہ کاسمو پولیٹن کلب کے رکن بنے تو طاہرہ مظہر علی خان اور مظہر علی خان سے تعارف ہوا۔ دونوں میاں بیوی کلب میں ٹینس کھیلنے آتے تو ساتھ میں ان کے ایک بچہ اور بچی ہوتے جو ٹینس کورٹ کے قریب گھاس پر بیٹھ جاتے تھے۔ اب مختار مسعود کی اسلوب کی سادگی و پرکاری دیکھیے کہ زمانے کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہوئے اس منزل پر لے آتے ہیں: ’ایک دن ایک خبر ملی جس نے ہماری ٹھہری ہوئی زندگی میں ہلچل مچا دی۔ وہ چھوٹا سا لڑکا جو مظہر علی اور بیگم طاہرہ کے ہمراہ آیا کرتا تھا وہ آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب ہو گیا ہے۔ ویت نام کی جنگ کے خلاف بڑے بڑے مظاہروں کی قیادت کرتا ہے۔ انقلاب کے حق میں اشتعال دلانے والی کتابیں لکھتا ہے، ایک کتاب کے سرورق پر گھریلو دستی بم بنانے کی ترکیب درج ہے۔ ہم سمجھے تھے کہ وہ اب تک کاسمو پولیٹن کلب میں ٹینس کورٹ کے کنارے پر بیٹھا ہوا ملے گا مگر وہ بہت فاصلہ طے کر چکا تھا۔ وہ جس نے علی گڑھ میں تین بار انگریزی مباحثے میں اول آنے پر ٹرافی حاصل کی تھی اس کا بیٹا آکسفورڈ یونین میں جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ وقت بھی کتنی تیزی سے سفر کرتا ہے۔ ہم نے جتنی دیر میں گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر ڈپٹی کمشنری سے کمشنری تک کا فاصلہ طے کیا ہے، یہ کل کے بچے اتنی دیر میں دنیا کو زیرو زبر کرنے پر تل گئے ہیں۔‘

طارق علی نے کتاب میں اپنے دادا دادی کے کشیدہ تعلقات پر اپنے والد کی شخصیت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے۔ ان کے خیال میں ماں باپ کے نزاعی رشتے کی وجہ انہوں نے دوستوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا اورکالج میں ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ آل انڈیا سوئمنگ چیمپیئن بنے اور1936 کے اولمپکس کے لیے ان کا انتخاب بھی ہوا تھا۔ طارق علی نے ان سے جب جاننا چاہا کہ ان کا گھرانہ اس قدر منقسم اور ناخوش کیوں تھا تو انہوں نے اس بارے میں بیٹے کو بتانا مناسب خیال نہیں کیا جبکہ وہ پہاڑوں کی لمبی سیر کے دوران اپنی والدہ کی رواں زبان سے یہ سارا قصہ سن چکے تھے جن سے وہ اپنے والد کی بہ نسبت جذباتی طور پر زیادہ قریب تھے اور وہ انہیں اپنے دوست اور بااعتماد ساتھی کی طرح ‘ٹریٹ’ کرتی تھیں۔

طارق علی نے والد کے بارے میں سنبھل کر لکھا ہے۔ ان کا بیان مؤثر ہے لیکن اس میں تشنگی محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ جوانی میں پاکستان سے باہر چلے گئے اور پھر وہیں ساری زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ طارق علی نے غیر جذباتی پیرائے میں باپ کے بارے میں لکھا لیکن آخر میں ایک ایسی جذباتی صورت حال کا بیان ہے جس سے ناگاہ انہیں دوچار ہونا پڑا۔ اس کی طرف جانے سے پہلے ایک واقعہ ذرا ملاحظہ کر لیجیے جس سے مظہر صاحب کے کریکٹر کا پتا چلتا ہے۔ انتقال سے ایک دن پہلے طارق علی نے انہیں فون کیا تو وہ گاڑی پر اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن میں ہونے والی ایسی تقریب میں شرکت کے لیے نکلنے والے تھے جس کا سرکاری طور پر بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ طارق علی نے ان سے کہا کہ وہ غیر ضروری طور پر خود کو کیوں تھکا رہے ہیں، اس پر مظہر علی خان نے جواب دیا کہ ان کے جانے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ سب حکومتی ہدایات پر عمل نہیں کرتے۔ اس سفر نے انہیں تھکن سے چور کردیا۔ اگلے دن وہ سفر آخرت پر روانہ ہو گئے، طارق علی اپنے والد کی تدفین کے ایک دن بعد لاہور پہنچے اور چند دن تعزیت کے لیے آنے والے حضرات ان سے افسوس کرتے رہے۔ اس عرصے میں وہ اپنے والد کو نہیں روئے۔ برسوں بعد ان کے رکے ہوئے آنسو اس وقت آنکھوں سے چھلکے جب وہ اپنے ناول ’دا سٹون وومن‘ میں جنازے کا ایک منظر بیان کر رہے تھے اور ان کو اپنے والد یاد آئے۔ طارق علی کے بقول:

’میں نے اپنے والد کے انتقال پر جو آنسو نہیں بہائے تھے وہ اب بہہ رہے تھے۔‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp