کوڑے مارنے والے شخص نے میرے ہاتھ ٹکٹکی پر باندھے اور کان کے قریب آکر کہنے لگا، ہمت کرنا ۔ یہاں کچھ روز پہلے ایک تیرہ سالہ لڑکے کو پندرہ کوڑے لگے وہ ہر کوڑے پرجئے بھٹوکا نعرہ لگاتا تھا۔ وی نیوز سے خصوصی طور پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی ناصر زیدی نے ضیاء دور کے جبر و تشدد کو یاد کیا۔
13 مئی 1978 کو فوجی عدالت نےپریس پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کرنے پر ناصر زیدی سمیت عارف مسعود اللہ خان، اقبال جعفری اور خاور نعیم ہاشمی کو ایک برس قید بامشقت اور کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ ناصر زیدی کے بقول میجر کی عدالت میں جب انہیں لایا گیا تو عدالت کا منصف قرآن پر حلف اٹھا کر کہنے لگا کہ انصاف کروں گا اور سچ بولوں گا، جس پر ہم نے کہا تم اپنے باس جنرل ضیاء کے ملازم ہو، تم ہمیں انصاف کیا دو گے۔ اپنا فیصلہ سناؤ،تمہیں یہ ڈرامہ کرنےکی ضرورت نہیں۔
کوڑے مارنے کے لیے جب ان صحافیوں کو کوٹ لکھپت جیل لے جایا گیا تو ڈاکٹر نے عارف مسعود اللہ خان کو کوڑے مارنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ناصر زیدی کہتے ہیں ، ایک نوجوان کیپٹن ہماری نگرانی کے لیے موجود تھا اور ہمیں کوڑے پڑتے دیکھنے کے لیے جیل کے قیدی گول دائرہ بنا کر کھڑے تھے۔ انگریز کے زمانے میں تشدد کے لیے استعمال ہونے والا کوڑا ہمارے جسم پر مارنے سے قبل ہمارے کپڑے اتارے گئے۔پھر ململ کا باریک کپڑا میری پیٹھ پرلگا یا اور ٹکٹکی میں میرے ہاتھ باندھ دیے گئے۔
:ہاتھ اتنے کمزور تھے کہ ہتھکڑی سے باہر نکل آتے تھے
کوٹ لکھپت کی اس شام کو یاد کرتے ہوئے ناصر زیدی بتاتے ہیں کہ میں اس وقت اتنا کمزور تھا کے میرے ہاتھ ٹکٹکی کی ہتھکڑی سے باہر نکل آتے تھے۔ کوڑے مارنے والے شخص نے زنجیر سے کس کر میرے ہاتھ ٹکٹکی سے باندھے اور کان کے قریب آکر کہتے لگا یہاں ہمت کرنا۔ شاید جیل کا یہ قیدی عدالتی حکم پر کوڑے تو مار رہا تھا مگر اس کا دل اندر سے ہمارے ساتھ تھا۔ ناصر زیدی کے مطابق انہیں کوڑے مارنے کے بعد اسٹریچرپر ڈال کر ہسپتال لے جانے کا حکم دیا گیا۔ مگر میں نے انکار کر دیا، میں انہیں یہ دیکھنے کا موقع نہیں دے سکتا تھا کہ میں حوصلہ ہار بیٹھا ہوں۔