ایس سی او اجلاس: چین اور روس کی بڑھتی قربتیں، کیا امریکا نئی صف بندیوں سے خائف ہے؟

جمعرات 4 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ اُنہیں روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے بہت مایوسی ہوئی۔ اُن کی انتظامیہ روس یوکرین جنگ میں اموات میں کمی لانے کے منصوبے پر کام کر رہی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ان کو روس اور چین کے درمیان گرم جوش تعلقات کے بارے میں کوئی فِکر نہیں۔

اس کے بعد چین میں فوجی پریڈ کے موقع پر چین، روس اور شمالی کوریا کے صدور کی موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہاکہ یہ تینوں امریکا کے خلاف سازش کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین، روس اور شمالی کوریا امریکا کے خلاف سازش کررہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا الزام

امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو ’نمائشی‘ قرار دیتے ہوئے بھارت، چین اور روس پر تنقید کی اور الزام لگایا کہ یہ ممالک روس کی یوکرین جنگ کو مالی طور پر ایندھن فراہم کررہے ہیں۔

انہوں نے خاص طور پر چین اور بھارت پر زور دیا کہ وہ روس سے سستا خام تیل خرید کر اسے مالی مدد دیتے ہیں، جو امریکی مفادات کے خلاف ہے۔ انہوں نے خبردار کیاکہ امریکا اور اس کے اتحادی اس حوالے سے سخت اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔

مبصرین کا تجزیہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ چین اور روس دراصل امریکا کے عالمی اثر کو چیلنج کررہے ہیں، اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے فورمز اس بدلتے ہوئے عالمی توازن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے اس پر زیادہ بات نہیں کی، لیکن حقیقت میں یہ ایک حقیقی اسٹریٹجک مقابلہ ہے، جو صرف طاقت کے توازن کی جنگ ہی نہیں بلکہ عالمی نظام کی لڑائی بھی ہے۔

آج چینی اخبار چائنا ڈیلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی تصویر صفہ اوّل پر شائع ہوئی جو دونوں ملکوں کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات کی عکاسی کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نئی صف بندیوں پر تشویش میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔

روس، چین اور بھارت کی قربت پر امریکا کو تشویش ہے: مسعود خان

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب مسعود خان نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یقیناً امریکا کو روس اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر تشویش ہے، اور پھر حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں بھارت کی شرکت اور پھر جس طرح سے بھارتی وزیراعظم کی روسی اور چینی صدور کے ساتھ قدرے طویل گفتگو کرتے ہوئے جو باڈی لینگوئج تھی، اُس نے بھی امریکا کو تشویش میں مبتلا کر دیاہے۔

انہوں نے کہاکہ بھارت نے امریکا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ اُس کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں، اِسی وجہ سے امریکی صدر اِس طرح کے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔

کیا امریکا شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی فعال اور متحرک شرکت سے بھی تشویش محسوس کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ پاکستان کی پالیسی بہت واضح ہے، اُس میں کوئی ابہام نہیں وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اُصولی مؤقف کے ساتھ کھڑا ہے جس اُصول کے تحت اِس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

’گو کہ روس کافی عرصے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کر رہا ہے لیکن پاکستان اور روس کے تعلقات کی وہ سطح ہر گز نہیں جو بھارت اور روس کے تعلقات کی ہے اور اِسی لیے 18 اگست کو امریکی صدر کے مشیرِ تجارت پیٹر نیوارو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری یوکرین جنگ کو مدد فراہم کر رہی ہے جس کا رُکنا چاہیے، اگر بھارت امریکا کا تزویراتی اتحادی بن کے رہنا چاہتا ہے تو اُس کو اُسی طریقے کا روّیہ اپنانا ہو گا۔‘

چین اور بھارت کے درمیان برف کیسے پگھلی؟

مسعود خان نے کہاکہ پاکستان اور بھارت 2017 میں ایک ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہوئے تھے۔ جبکہ 2020 میں بھارت اور چین کے درمیان پہلے ڈوکلام اور بعد میں گلوان کے مقام پر سرحدی تنازع ہوا جس کے بعد بھارت نے چین دشمنی میں کئی قدم اُٹھائے اور کواڈ تنظیم کا رُکن بھی بنا۔ لیکن اب چین اور بھارت امریکی ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد ایک نقطے پر متفق ہیں کہ یہ ٹیرف غیر منصفانہ ہیں اور ملٹی لیٹرلزم پر مبنی ایک نیا نظام تشکیل دیے جانے کی ضرورت ہے۔

مودی کے ہوتے ہوئے روس، چین اور بھارت اتحاد قائم نہیں ہو سکتا: سفارتکار وحید احمد

پاکستان کے سابق سفیر وحید احمد نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہوتے ہوئے روس، چین اور بھارت اتحاد قائم نہیں ہو سکتا۔ اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مودی خود کو گلوبل نارتھ کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بھارت روس اور چین کے ساتھ ساتھ خود کو بھی خطے کی اہم طاقت مانتا ہے، لیکن شنگھائی تعاون تنظیم اِجلاس میں جو بھارت کی شمولیت دیکھی گئی اُس سے بھارت کا مقصد صرف یہ ہے کہ آئندہ سال بھارت میں ہونے والے برِکس اِجلاس میں اُسے برِکس اراکین کی حمایت مل جائے کیونکہ برِکس تنظیم میں روس اور چین بھی شامل ہیں۔

وحید احمد نے کہاکہ بھارت کو اِس وقت روس اور چین کی ضرورت ہے اور بھارت کی چین کے ساتھ قربت بنیادی طور بھارت کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی پریڈ: چین نے غیرمعمولی صلاحیتوں سے آراستہ جنگی ڈرونز متعارف کرا دیے

انہوں نے کہاکہ امریکا کی ایک سیکیورٹی ڈاکٹرائن ہے اگر آپ اُس کی پیروی کرتے ہیں تو امریکا آپ کے ساتھ ہے لیکن چین کی اُس طرح سے سیکیورٹی ڈاکٹرائن نہیں۔ ’چین کا نظریہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے، امریکا نے جو بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیے ہیں اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اگر چین سے فیکٹریاں بھارت منتقل ہوتی ہیں تو امریکی اجارہ داری نظام پر فرق نہ پڑے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp