محکمہ داخلہ بلوچستان نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو باضابطہ مراسلہ بھیج کر صوبے بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کی درخواست کر دی ہے۔
حکومتی حکم کے مطابق 5 ستمبر کی شام 6 بجے سے 6 ستمبر کی رات 9 بجے تک موبائل فون اور براڈ بینڈ انٹرنیٹ بند رہے گا تاکہ کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار یا غیر قانونی واقعے سے بچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے انٹرنیٹ سروسز کو بلوچستان کے حالات کے مطابق ریگولیٹ کرنا ناگزیر ہے، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی
مراسلے میں واضح کیا گیا ہے کہ کوئٹہ، مستونگ، سبی، نوشکی اور خضدار میں پی ٹی سی ایل اور این ٹی سی کی سروس بھی معطل رہے گی، تاہم وائٹ لسٹ شدہ نمبرز اور سرکاری اداروں کے پی ٹی سی ایل و این ٹی سی نمبرز اس فیصلے سے مستثنیٰ ہوں گے۔

عوامی مشکلات
انٹرنیٹ سروس کی بندش پر شہریوں نے تشویش اور ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ جامعہ بلوچستان کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم آریان حسن نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا:
’دنیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے مگر بلوچستان میں آج بھی سیکیورٹی خدشات کے نام پر انٹرنیٹ بند کر دیا جاتا ہے۔ تعلیم مکمل طور پر آن لائن ہو چکی ہے، ایسے میں اگر 2 دن انٹرنیٹ بند رہا تو پڑھائی کیسے ممکن ہوگی؟‘
مزید پڑھیں:قومی شاہراہوں اور انٹرنیٹ کی بندش سے بلوچستان میں کاروباری طبقے کو کتنا نقصان ہو رہا ہے؟
اسی طرح ایک ڈیلیوری ورکر داؤد احمد نے کہا کہ ان کے روزگار کا انحصار آن لائن آرڈرز پر ہے۔
’اگر انٹرنیٹ نہیں ہوگا تو آرڈرز نہیں آئیں گے، اور کمیشن بھی نہیں ملے گا۔‘
انٹرنیٹ بندش کا تسلسل
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی ہو۔ اس سے قبل 6 اگست کو بھی صوبے بھر میں موبائل انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا جس پر شہریوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔
معاملہ بلوچستان ہائیکورٹ تک پہنچا، جہاں چیف جسٹس روزی خان بڑیچ اور جسٹس سردار احمد حلیمی پر مشتمل بینچ نے 21 اگست کو حکم دیا تھا کہ کوئٹہ میں انٹرنیٹ سروس 2 گھنٹے میں بحال کی جائے۔
یہ بھی پڑھیے بلوچستان اسمبلی میں موبائل انٹرنیٹ بندش کے خلاف تحریک التوا جمع
بعد ازاں عدالت نے واضح کیا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد پشین، چمن اور کوئٹہ کے کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ جزوی طور پر بحال کیا گیا۔
شہریوں کا مطالبہ
شہری حلقے اور صارفین کی تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ بار بار انٹرنیٹ بند کرنے کے بجائے سیکیورٹی کے دیگر مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ تعلیم اور روزگار متاثر نہ ہو۔












