اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس 9 ستمبر سے شروع ہوگا اور جنرل ڈیبیٹ 23 سے 29 ستمبر تک جاری رہے گی۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس ماہ نیویارک میں ہونے والے جنرل ڈیبیٹ سے خطاب نہیں کریں گے۔
خارجہ امور کے ماہر علی سرور نقوی کی رائے
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ خارجہ امور علی سرور نقوی نے کہا کہ جنرل اسمبلی میں خطاب وزرائے اعظم کے لیے ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اس دوران دیگر ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کر کے روابط بہتر بنائے جاتے ہیں اور قومی مفادات کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا-بھارت کشیدگی، مودی کا اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت سے گریز
انہوں نے کہا کہ اگر وزیر خارجہ شریک ہو تو یہ ایک منفی تاثر دیتا ہے۔ مزید یہ کہ امریکی صدر، بطور میزبان، سربراہانِ حکومت کو خصوصی عشائیہ پر مدعو کرتے ہیں لیکن وزرائے خارجہ کو اس موقع کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔
اس لیے وزیر اعظم کی غیر حاضری بھارت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکا-بھارت کشیدگی ایک بڑی وجہ
علی سرور نقوی کے مطابق نریندر مودی کی غیر حاضری کی ایک بڑی وجہ بھارت اور امریکا کے درمیان حالیہ کشیدگی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نہیں چاہتے کہ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران ان کا براہِ راست سامنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو۔
انہوں نے کہا کہ اگر ملاقات ہو گئی تو امریکا کی جانب سے بھارت پر مزید دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ مودی ابھی تک ٹرمپ کے پاک-بھارت کشیدگی کم کرنے کے کردار کو تسلیم نہیں کرتے، جبکہ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ مودی ان کے کردار کو سراہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی اس سامنا سے بچنے کے خواہاں ہیں۔
سابق سفیر مسعود خالد کا مؤقف
سابق سفیر مسعود خالد نے ایک مختلف رائے پیش کی۔ ان کے مطابق جنرل اسمبلی سے خطاب لازمی طور پر وزیر اعظم یا صدر کو ہی نہیں کرنا پڑتا۔
پاکستان کی طرف سے بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خطاب کر چکے ہیں اور چین کی نمائندگی بھی ماضی میں وزیر خارجہ نے کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ-مودی 35 منٹ کی کال جس نے بھارت امریکا تعلقات میں دراڑ ڈال دی
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کا پالیسی بیان دینے کے لیے کوئی بھی نمائندہ مقرر کیا جا سکتا ہے اور اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا۔
ان کے مطابق مودی کی غیر حاضری کو کسی خاص وجہ سے جوڑنا درست نہیں ہوگا۔