خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہاؤس اور سرکاری مہمان خانوں میں کچھ عرصے سے مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو پنجاب اور دیگر صوبوں میں مختلف کیسز میں گرفتاری سے بچنے کے لیے خیبر پختونخوا کا رخ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سمیت کن 12 اراکین کی بنیادی رکنیت ختم کر دی؟
سنہ2024 کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی تیسری بار حکومت بننے کے بعد سے پارٹی رہنما 9 مئی اور دیگر سیاسی نوعیت کے کیسز میں گرفتاری اور پولیس کارروائی سے بچنے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کے مہمان بنے ہوئے ہیں اور کچھ رہنما مستقل طور پر وزیراعلیٰ ہاؤس میں بھی قیام پذیر ہیں۔
تاہم گزشتہ 2 ماہ کے دوران 9 مئی کے کیسز میں فیصلے سنائے جانے اور پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں ملنے کے بعد مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے انسداد دہشتگردی عدالت فیصل آباد اور لاہور نے مختلف کیسز میں شبلی فراز، عمر ایوب، حمید رضا، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو سزائیں سنائی تھیں جبکہ الیکشن کمیشن نے انہی سزاؤں کی بنا پر پی ٹی آئی کو نااہل قرار دے کر نشستیں خالی ہونے کا اعلامیہ جاری کیا تھا۔
پنجاب کے رہنماؤں کی پشاور ہائیکورٹ میں درخواستیں کیوں مسترد ہوئیں؟
پنجاب میں 9 مئی کیسز میں سزا کے خلاف روپوش رہنما پشاور میں منظر عام پر آئے اور فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی۔
پشاور ہائیکورٹ نے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اراکین عمر ایوب، شبلی فراز، عبدالطیف کی درخواستوں پر الیکشن کمیشن کو کارروائی سے روک دیا جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین کو متعلقہ ہائیکورٹس سے رجوع کرنے کی ہدایت کرکے درخواستیں واپس کر دیں۔
سماعت کے دوران سزا یافتہ افراد رائے حیدر علی، صاحبزادہ حامد رضا، رائے حسن خان، رائے مرتضیٰ اور رائے انصار، زرتاج گل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت نے ان کی نااہلی کے خلاف دائر درخواستوں کو واپس کر دیا اور واضح کیا کہ یہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور درخواست گزاروں کو لاہور یا اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔
15 صفحات پر مشتمل فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں کو فیصل آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے 31 جولائی کو سزا سنائی تھی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 5 اگست کو انہیں نااہل قرار دیا۔ چونکہ یہ کارروائی پنجاب کی عدالت اور اسلام آباد میں موجود الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہوئی اس لیے پشاور ہائیکورٹ اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
سزا یافتہ رہنماؤں کا پشاور میں قیام
9 مئی توڑ پھوڑ کیسز میں سزا یافتہ پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے رہنما پنجاب، اسلام آباد اور دیگر صوبوں میں گرفتاری سے بچنے کے لیے پنجاب جانے سے گریزاں ہیں اور متعلقہ ہائیکورٹس میں درخواستیں تک نہیں دے سکے۔
گرفتاری سے بچنے کے لیے ایسے رہنماؤں نے خیبر پختونخوا میں مبینہ طور پر روپوشی اختیار کی ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ حکومت بننے کے بعد سے ہی دیگر صوبوں کے رہنما کے پی میں قیام کو ترجیح دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے باقاعدہ طور پر کابینہ ممبران اور اراکین صوبائی اسمبلی کو ہدایت کی ہیں کہ ان کا خیال رکھا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ’جب بھی کوئی ایسا مہمان آتا ہے تو کسی ایک وزیر یا رکن کی ذمہ داری لگا دی جاتی ہے کہ ان کے رہائش اور دیگر انتظامات کرے‘۔
رہنما نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم اور گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید بڑے عرصے سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہی قیام پذیر ہیں اور وہاں ان کو کمرے اور دفتر بھی دیے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی ہدایت پر استعفے: پی ٹی آئی پارلیمنٹ کی کتنی کمیٹیوں سے محروم ہو جائےگی؟
انہوں نے کہا کہ کچھ رہنما گلیات اور ایبٹ آباد میں روپوش ہیں اور انتظامات یا تو حکومت کر رہی ہے یا متعلقہ پارٹی رہنما۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ تو کیسز میں فیصلے سے پہلے سے پہنچے ہوئے تھے کیوں کہ ان کو اندازہ تھا کہ انہیں سزا ہو سکتی ہے۔
رہنما کا کہنا تھا کہ زرتاج گل اور صنم جاوید بھی پشاور میں ہی روپوش ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صنم جاوید ایک خاتون حکومتی عہدیدار کے گھر میں روپوش ہیں اور وزیراعلیٰ کے کہنے پر وہاں مقیم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پارٹی کی جانب سے ہدایت ہے کہ جب تک سزا معطل نہیں ہوتی وہ صوبے سے باہر نہ جائیں۔
سزا یافتہ رہنماؤں کو مبینہ پناہ فراہم کرنے کے حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے وی نیوز نے ترجمان خیبر پختونخوا سے رابطے کی بارہا کوششیں کیں مگر ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
خیبرپختونخوا پی ٹی آئی کی محفوظ پناہ گاہ
تجزیہ کاروں کے مطابق مشکل حالات میں خیبر پختونخوا پی ٹی آئی کی محفوظ پناہ گاہ ہے جہاں دیگر صوبوں کی پولیس کارروائی نہیں کر سکتی اور حکومت اپنے رہنماؤں کو مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
عارف حیات پشاور کے سینیئر صحافی ہیں اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور کے دور میں وزیراعلیٰ ہاؤس پارٹی کا مرکز بنا ہوا ہے اور کئی رہنما مستقل طور پر قیام پذیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’خواہ احتجاج کے لیے لوگ نکالنے ہوں یا رہنماؤں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنی ہوں پی ٹی آئی کا مکمل انحصار علی امین گنڈاپور اور صوبائی حکومت پر ہے۔
عارف حیات نے بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق تمام سزا یافتہ لوگ جو باہر ہیں وہ سب کے پی میں روپوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لیے کے پی محفوظ ہے اور یہاں مقتدر حلقے بھی کارروائی نہیں کر سکتے جبکہ پنجاب پولیس صرف شور مچا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سلمان اکرم راجا کا پی ٹی آئی سیکریٹری جنرل کے عہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ عمران خان بھی وفاقی حکومت کے خاتمے کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور آئے تھے جبکہ ان کی اہلیہ بھی جیل سے رہائی کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس میں رہ رہی تھیں لیکن مبینہ طور پر وزیراعلیٰ سے اختلافات کے بعد واپس گئیں اور بعد میں دوبارہ گرفتار ہو گئیں۔