سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں رؤف عطاء کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے 4 ججز کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراض کی کوئی اہمیت نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 4 ججوں نے سپریم کورٹ رولز کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری غیر قانونی قرار دے دی
یاد رہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ کے 4 سینیئر ججز بشمول جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ اے ملک نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کی منسوخی اور سپریم کورٹ رولز 2025 کے نفاذ کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ غیر قانونی ہے۔
چاروں ججز نے نہ صرف یہ کہ سپریم کورٹ رولز کی بذریعہ سرکولیشن منظوری پر اعتراض اٹھایا بلکہ یہ بھی کہا ان رولز کی منظوری صرف فل کورٹ اِجلاس میں پیش کیے جانے سے ہی ممکن ہو سکتی تھی۔
سپریم کورٹ رولز کی تشکیل کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں رؤف عطاء نے وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 4 ججز کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراض کی کوئی اہمیت نہیں۔ اِس وقت سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کو مِلا کر کُل 25 ججز ہیں اور 21 ججز نے اِس طریقہ کار کے بارے میں کوئی سوال نہیں اُٹھایا۔
میاں رؤف عطاء نے بتایا کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کے لیے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کی جانب سے گزشتہ برس ایک ہائی پاور کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی سربراہی جسٹس شاہد وحید کو دی گئی۔ اُن کے ساتھ جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی شامل تھے۔ اس کمیٹی کی تشکیل کا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھے اور اُن میں بہتری لانے کی گنجائش تھی۔
مذکورہ کمیٹی نے 17 سے 19 اجلاسوں کے بعد سفارشات مرتب کی ہیں۔ 19 مارچ کو اِس کمیٹی کا پہلا اِجلاس ہوا تھا۔
مزید پڑھیے: ججز تبادلہ کیس: تبادلوں کی اصل وجہ حساس اداروں کی مداخلت پر خط تھا، منیر اے ملک کا دعویٰ
رولز ڈرافٹ ہونے کے بعد فُل کورٹ ریفرنس میں پیش کیے گئے جس میں تمام جج صاحبان نے شرکت کی اور مطالبہ کیا کہ مسوّدے کی ہارڈ اور سافٹ کاپیز مہیّا کی جائیں جو کہ مہیّا کر دی گئیں۔
اُس کے بعد خط لکھنے والے 2 جج صاحبان نے اپنی تجاویز بھی دیں۔ اور پھر ان رولز کے بارے میں اٹارنی جنرل آفس، سپریم کورٹ بار، پاکستان بار، تمام ہائی کورٹ بار اور حتٰی کہ عوام سے بھی رائے طلب کی گئی۔
اس سارے عمل کے بعد اِن رولز کی تمام ججز سے سرکولیشن کے لیے منظوری لی گئی۔ اس کے بعد یہ 06 اگست کو نوٹیفائی ہو گئے اور 09 اگست کو اِنہیں شائع کیا گیا۔ اس سب کے بعد اِس موقع پر اعتراض کرنا درست عمل نہیں۔
ججز کو اپنے اختلافات چائے کے وقفے میں طے کرنے چاہییں
میاں رؤف عطاء نے کہا کہ خطوط لکھنے والے ججز وہ ہیں 26 ویں آئینی ترمیم سے متاثر ہوئے ہیں، آپ چیف جسٹس سے اختلافِ رائے کا اظہار کر سکتے ہیں لیکن اس سے سپریم کورٹ کے ادارے کا وقار خراب ہو رہا ہے۔
کل نئے عدالتی سال کے موقع پر ہونے والی تقریب میں، میں نے جو تقریر کی اُس میں یہی کہا کہ یہ خطوط کا سلسلہ نہیں ہونا چاہیے اور جج صاحبان کو اپنے معاملات ٹی۔روم میں بیٹھ کر حل کرنے چاہییں۔ یقیناً وہ جج صاحب 26 ویں آئینی ترمیم سے متاثرہ فریق ہیں۔ اگر یہ ترمیم نہ لائی جاتی تو وہ چیف جسٹس ہوتے لیکن اِس ترمیم کو لانے میں نہ چیف جسٹس کا کوئی کردار ہے نہ بار کونسل کا، یہ پارلیمان کی منظور کردہ ترمیم ہے جو اب آئین کا حصّہ بن چُکی ہے جس آئین کے تحت تمام جج صاحبان نے حلف لیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے خطوط کی کوئی آئینی حیثیت نہیں یہ محض سپریم کورٹ کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، ماضی میں جو خطوط لکھے جاتے رہے ہیں وہ بھی غلط تھا اور آج جو لکھے جا رہے ہیں وہ بھی غلط ہیں۔
وکلا کی اکثریت 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف نہیں
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء تحریک ناکام کیوں ہوئی،اس سوال کے جواب میں میاں رؤف عطاء نے کہا کہ وکلا کی اکثریت 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف نہیں۔ سپریم کورٹ بار اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز اِس کی حمایت کر چُکی ہیں۔
اس ترمیم سے عدلیہ کے اختیارات میں کمی نہیں ہوئی۔ پہلے چیف جسٹس کی تقرری 5 سے 6 لوگ کیا کرتے تھے اب 12 سے 18 لوگ اِس تقرری کے عمل میں شمولیت کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے میٹنگ منٹس پبلک کرنے کا معاملہ، 2 سینیئر ججز نے چیف جسٹس کو نیا خط لکھ دیا
اس کا مطلب ہے کہ مشاورت کا عمل وسیع ہوا ہے اور پہلی دفعہ ہوا ہے کہ دور دراز علاقوں سے عام وکلا کو ہائی کورٹ میں بطور جج تعیّنات کیا گیا ہے۔ اس ترمیم ثمرات کیا ہوئے اِس بارے میں آئندہ وقت بتائے گا۔
’سیاسی نوعیت کے مقدمات نہ ہوتے تو آئینی بینچ کی کارکردگی اور زیادہ ہوتی‘
میاں رؤف عطاء نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے سے آئینی بینچ وجود میں آیا۔ جس کے سامنے کچھ سیاسی نوعیت کے مقدمات ہیں۔ ایک مقدمے میں 50 دوسرے میں 20 تیسرے میں 18 سماعتیں ہو چُکی ہیں۔ اگر سیاسی نوعیت کے مقدمات نہ ہوتے تو اِس کی کارکردگی مزید بہتر ہوتی۔
25 ویں ترمیم کا ذکر نہیں کرتے، 26 ویں کا تذکرہ کرتے ہیں
میاں رؤف عطاء نے کہا کہ کل عدالتی سال شروع ہو گیا ہے اور اُمید ہے جلد 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہو گی لیکن 25 ویں آئین ترمیم جس کے ذریعے سے قبائلی علاقہ جات کو ضم کیا گیا تھا وہ بھی تو عدالت میں زیرِالتوا ہے اُس پر کوئی بات نہیں ہوتی 26 ویں ترمیم پر بات ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک رواج بن چُکا ہے کہ ہر چیز میں ہم بدنیّتی ڈھونڈے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دوسری بات یہ کہ آئینی تشریحات سے متعلق مقدمات آئینی بینچ ہی سنتا ہے اور یہ کہنا درست نہیں کہ یہ مقدمہ فُل کورٹ سنے۔
آئینی بینچ کی تشکیل پی ٹی آئی کا مطالبہ تھا
میاں رؤف عطاء نے کہا کہ جب 26 ترمیم کے لیے مشاورت ہو رہی تھی تو مولانا فضل الرّحمان کی رہائشگاہ پر بھی مشاورت کا عمل ہوا جس میں پی ٹی آئی اراکین بھی شامل تھے اور آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچ بنیادی طور پر اُنہی کا مطالبہ تھا۔
یہ بھی پڑھیے: تحریک تحفظِ آئین کا شوگر اسکینڈل پر چیف جسٹس کو خط، از خود نوٹس اور 3 رکنی ججز کمیٹی تشکیل کا مطالبہ
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ کمیٹیوں میں بھی شریک رہے لیکن سیاسی رسہ کشی میں بدنامی ادارے کی ہورہی ہے۔