پاکستان آج کل موسمیاتی تبدیلی کی جنگ کے عین سامنے کھڑا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، غیر متوقع بارشوں، تباہ کن فلیش فلڈز اور طویل ہیٹ ویوز اب کوئی دور کی وارننگ نہیں رہیں، یہ وہ موجودہ حقیقتیں ہیں جو ہماری زندگیاں، معاش اور اس ملک کے جغرافیے کو براہِ راست خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ ان خطرات کے مقابلے میں ایک ہی حل سب سے زیادہ فوری اور مؤثر نظر آتا ہے: پورے ملک میں وسیع پیمانے پر جنگلات کاری۔ درخت لگانا، موجودہ جنگلات کی حفاظت کرنا اور سبزے کی وسعت بڑھانا اب کوئی ماحولیاتی مہم نہیں بلکہ بقا، مزاحمت اور قومی سلامتی کا تقاضا ہے۔
پاکستان میں جنگلات کی موجودہ صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ ورلڈ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صرف تقریباً 4.7 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ دوسری طرف گلوبل فورسٹ واچ کے مطابق قدرتی جنگلات کا تناسب بعض برسوں میں 2فیصد سے بھی کم ہے۔ کسی بھی عدد کو مان لیں، نتیجہ ایک ہی ہے کہ پاکستان خطرناک حد تک عالمی اوسط سے پیچھے ہے۔
بین الاقوامی حیاتیاتی تنوع کے فریم ورک کے تحت کم از کم 30 فیصد زمین کو جنگلات یا محفوظ علاقے ہونا چاہیے۔ پاکستان کو اس کم از کم معیار تک پہنچنے کے لیے اپنے موجودہ رقبے میں 20ملین ہیکٹر سے زائد کا اضافہ کرنا ہوگا، جو تقریباً 20ارب نئے درختوں کے برابر ہے۔ یہ ہدف مشکل ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی نے ہمیں اسی پیمانے پر سوچنے پر مجبور کیا ہے۔
اگر صوبوں کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ قدرتی جنگلات ہیں لیکن غیر قانونی کٹائی اور بے قابو لکڑی کے استعمال نے ان کی تعداد تیزی سے کم کی ہے۔ سندھ میں دنیا کے چند بڑے مینگرووز موجود ہیں جو طوفانوں اور ساحلی کٹاؤ کے خلاف قدرتی ڈھال ہیں لیکن یہ بھی کئی دہائیوں سے سکڑتے جا رہے ہیں۔
پنجاب کے دریاؤں کے کنارے کبھی سرسبز جنگلات ہوتے تھے مگر شہروں کی توسیع، زرعی دباؤ اور قبضوں نے انہیں تقریباً ختم کر دیا ہے۔ بلوچستان کے خشک جنگلات اور چراگاہیں بھی شدید دباؤ میں ہیں جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے قیمتی پہاڑی جنگلات بڑھتی ہوئی انسانی طلب اور نازک ماحولیاتی تبدیلی کے سبب خطرے میں ہیں۔
جنگلات کے خاتمے کے اثرات ہم سب کے سامنے ہیں۔ جب جنگلات نہیں ہوتے تو فلیش فلڈز زیادہ مہلک ہو جاتے ہیں کیونکہ کوئی چیز پانی کو روکنے یا جذب کرنے کے لیے موجود نہیں رہتی۔ شہروں میں درخت نہ ہونے کی وجہ سے درجۂ حرارت کئی ڈگری بڑھ جاتا ہے۔ کاربن جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور یوں پاکستان براہِ راست گلوبل وارمنگ کی لپیٹ میں آتا ہے۔ حیاتیاتی تنوع ختم ہوتا ہے اور پانی کے چکر بگڑ جاتے ہیں، کہیں خشک سالی آتی ہے اور کہیں سیلاب۔
اس کا حل مگر ہمارے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان نے دیکھا کہ شجرکاری کی بڑی مہمیں، جیسے ٹین بلین ٹری سونامی، عوام اور اداروں کو بڑے پیمانے پر متحرک کر سکتی ہیں۔ لیکن اب ضرورت محض ایک وقتی مہم کی نہیں بلکہ ایک مستقل قومی حکمتِ عملی کی ہے۔ جنگلات کاری کو غیر سیاسی، طویل المدت اور قومی ترجیح قرار دینا ہوگا۔
اس کے لیے صوبائی حکومتیں، مقامی ادارے، سول سوسائٹی، پرائیویٹ کمپنیاں، اسکول، مساجد اور ہر گھر شامل ہونا چاہیے۔ ہر شہری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ درخت لگانا اور ان کی حفاظت کرنا فقط کوئی صدقہ نہیں بلکہ اب بقا کی جنگ ہے۔
یہ صرف درختوں کی گنتی بڑھانے کا معاملہ نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کو زندہ کرنے کا سوال ہے۔ پودے لگاتے وقت مقامی ماحول کے مطابق اقسام کا انتخاب ہونا چاہیے: ساحل کے لیے مینگرووز، پہاڑوں کے لیے دیسی کونفرز، پنجاب اور سندھ کے لیے مقامی دریا کنارے درخت اور بلوچستان کے لیے خشک سالی برداشت کرنے والی اقسام۔ شجرکاری کے ساتھ ساتھ غیر قانونی کٹائی اور قبضوں کے خلاف سخت کارروائی بھی ضروری ہے ورنہ ہر کوشش ضائع ہو جائے گی۔
دیہی آبادی کو متبادل توانائی فراہم کرنی ہوگی تاکہ وہ ایندھن کے لیے درخت نہ کاٹیں۔ شہروں میں سبز راہیں اور گرین بیلٹس کو منصوبہ بندی کا لازمی حصہ بنایا جانا چاہیے۔
یہ مسئلہ حکومتوں یا سیاست سے آگے ہے۔ یہ ایک قومی فرض ہے۔ جس طرح ڈیم بنانا یا سرحدوں کا دفاع کرنا قومی ذمہ داری ہے، اسی طرح جنگلات کاری کو بھی قومی دفاع کا ستون سمجھنا ہوگا۔ اگر آج ہم نے قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلوں کو زیادہ گرمیاں، زیادہ تباہ کن سیلاب، بگڑی ہوئی زمین اور ایک اجاڑ وطن ورثے میں ملے گا۔
وقت آگیا ہے کہ ہر پاکستانی درخت لگائے، اس کی حفاظت کرے اور سبزہ پھیلائے۔ ایک سرسبز پاکستان صرف ایک خوابِ خوبصورتی نہیں بلکہ بقا کی واحد ضمانت ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔