بھارتی ریاست کیرالا میں ایک خطرناک نایاب بیماری ’برین ایٹنگ ایمیبا‘ (Brain-eating Amoeba) یعنی پرائمری ایمیوبک مینینگو اینسیفلائٹس (PAM) نے اب تک 19 افراد کی جان لے لی جبکہ درجنوں متاثر ہو چکے ہیں۔
یہ بیماری ناگلیریا فاولیری نامی خوردبینی جراثیم سے پھیلتی ہے جو عموماً نیم گرم میٹھے پانی اور مٹی میں پایا جاتا ہے۔ یہ ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر دماغی خلیات پر حملہ کرتا ہے جس سے دماغ میں شدید سوجن اور سوزش پیدا ہوتی ہے اور اکثر چند دنوں میں موت واقع ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کیا ٹوائلٹ سیٹ سے جنسی و دیگر بیماریاں لگ سکتی ہیں؟
حکام کے مطابق مریضوں کی عمریں 3 ماہ کے بچے سے لے کر 91 سالہ بزرگ تک ہیں جس کے باعث متاثرہ مقامات یا ایک ہی ذریعہ آلودگی تک رسائی کی نشاندہی مشکل ہو رہی ہے۔
کیرالا کی وزیر صحت وینا جارج نے اس صورتحال کو سنگین عوامی صحت کا مسئلہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس طرح کے کیسز کسی ایک آبی ذخیرے سے منسلک پائے گئے تھے لیکن اس بار یہ الگ الگ اور تنہا کیسز ہیں جس نے تحقیقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
وزیر صحت کا کہنا تھا کہ بروقت تشخیص سے زندگی بچائی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق کیرالا میں مریضوں کی بقا کی شرح 24 فیصد ہے جو کہ عالمی اوسط 3 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ کامیابی جلدی تشخیص اور ملٹی فوسین نامی اینٹی پیراسائٹک دوا کے استعمال سے ممکن ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سروائیکل کینسر ویکسین تولیدی صحت کے لیے کتنی محفوظ، پاکستان میں لوگ بائیکاٹ کیوں کررہے ہیں؟
محکمہ صحت کے مطابق اگرچہ کیسز کی تعداد زیادہ نہیں لیکن ریاست بھر میں بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں تاکہ بروقت علاج کیا جا سکے۔ حکام نے پانی کی صفائی کے اقدامات سخت کر دیے ہیں اور عوام کو جمے ہوئے میٹھے پانی کی جگہوں پر نہانے یا تیراکی سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ مرض براہ راست پانی پینے سے نہیں پھیلتا بلکہ آلودہ پانی ناک میں داخل ہونے سے لگتا ہے۔