رواں ماہ ستمبر 17 کو پاکستان اور سعودی عرب کے مابین مشترکہ دفاع کا معاہدہ ہوا ہے۔ معاہدے کے مطابق دونوں ممالک میں سے ایک پر حملہ دوسرے پر بھی حملہ تصور ہوگا۔ اس حوالے سے پہلا سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مشترکہ دفاع کا خیال کوئی تازہ تصور ہے جس نے سعودی عرب یا پاکستان میں جنم لیا، اور پھر اس پر دونوں ممالک کے مابین بات چیت ہوئی جو معاہدے تک پہنچی ؟ نہیں، دونوں مملک کے مابین یہ معاہدہ سات پردوں میں مستور 70 کی دہائی کے آخری ایام سے موجود تھا۔
بنیاد اس کی یوں پڑی تھی کہ جب پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام شروع کرنے جا رہا تھا تو اس کا خرچہ اٹھانا پاکستان کے بس سے باہر تھا۔ چنانچہ سعودی عرب اور کچھ دیگر عرب ممالک اس پروگرام کی فنڈنگ کے لئے تیار ہوئے مگر اس شرط پر کہ کامیابی کی صورت بم محض پاکستانی نہیں بلکہ “اسلامک بم” ہوگا۔
فنڈز فراہم کرنے والوں کا بھی اس پر حق ہوگا۔ سو تازہ صورتحال میں یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ ہمارے بم کو اسلامک بم والا ٹائٹل مغرب نے بے سبب نہیں بلکہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر دیا تھا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خرچہ اٹھانے والوں میں سے سعودیوں کی اہمیت یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ آخری حد تک گئے۔ سعودیوں نے صرف امریکی دباؤ کو ہی مسترد نہیں کیا بلکہ جب ایٹمی پروگرام کی وجہ سے دو بار پاکستان پر امریکی پابندیاں عائد ہوئیں تو یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے گویا پاکستان کو “آئل اے ٹی ایم کارڈ” گفٹ کرکے امریکی پابندیوں کا اثر پاکستانی معیشت پر پڑنے نہیں دیا۔ اور یہی مشترکہ دفاع والے غیر علانیہ معاہدے میں طے تھا۔ اسی خفیہ معاہدے کے تحت ہماری دو ڈویژن فوج بھی سالہا سال سے سعودی عرب میں تعینات رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کو اب تک خفیہ کیوں رکھا گیا تھا ؟ اور اگر خفیہ رکھنا ضروری تھا تو وہ ضرورت اب ختم کیسے ہوگئی ؟ جواب بہت ہی سادہ ہے۔ اب “چوہدری صاحب” میں وہ پہلے والا دم خم نہیں رہا۔ امریکی طاقت کے دنوں میں ہم اسے اوپن کرتے تو اسلامک بم کا وہ شور اٹھتا کہ سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔ اور محض شور ہی کہاں اٹھتا، پاکستان سے یہ طاقت چھیننے کی ہر ممکنہ کوشش ہوتی اور وہ بھی اقوام متحدہ کے راستے۔
چنانچہ امریکی قوت والے دونوں میں ہمارا آفیشل موقف یہی رہا کہ اسلامک بم کی اصطلاح ایک بھونڈا مذاق ہے۔ اب آکر ہم نے اوپن معاہدے کی صورت گویا عملا ثابت کردیا کہ ہاں ہمارا بم اسلامک ہی ہے۔ اس پر مخالف کیمپ میں کوئی ہلجل ہوئی ؟ جب حالات بدلتے ہیں تو ان کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔
بین الاقوامی امور میں عالمی اثرات رکھنے والے کسی بھی اقدام کے لئے جواز یعنی “بہانہ” لازمی ضرورت ہوتا ہے۔ تاکہ “ذمہ دار ملک” والا تاثر بنا رہے۔ مثلا ایٹم بنانے کے بعد ہمیں اس کے دھماکے کی بھی تو ضرورت تھی تاکہ آفیشلی ڈیکلیئر ہوجاتا کہ پاکستان اب ایک ایٹمی ملک ہے۔ لیکن ہمیں اپنے دھماکوں کے لئے لگ بھگ 15 سال تک بہانے کا انتظار کرنا پڑا۔ اور یہ بہانہ ہمیں انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے فراہم کیا۔
بل کلنٹن نے دھماکوں سے روکنے کے لئے نواز شریف کو اربوں ڈالرز کی پیشکش کیوں کی تھی ؟ روکنے کا مطلب تو یہی تھا کہ امریکہ مان رہا ہے کہ پاکستان کے پاس بم موجود ہے۔ تو پھر دھماکے اتنے اہم کیوں تھے کہ ان سے روکنے کی قیمت 5 ارب ڈالرز آفر ہوئی ؟ کیونکہ بم ہونے کے باوجود پاکستان کے سی وی پر ایٹمی انٹری موجود نہ تھی۔ وہی روکنی مقصود تھی۔ دھماکوں کے بعد کوئی مانتا یا نہ مانتا ہم ایٹمی کلب کا حصہ ہوتے، اور ہیں۔
سو امریکہ کے کمزور پڑنے کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے مابین موجود خفیہ معاہدے کو اوپن کرنے کا موقع آچکا تھا۔ مگر اس کے لئے بھی بہانہ درکار تھا۔ اور یہ بہانہ ہمیں اسرائیل نے قطر میں واقع حماس کے دفتر پر حملہ کرکے فراہم کردیا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی ہم نے موقع ضائع نہیں کیا۔ اس کے لئے ماحول اتنا سازگار تھا کہ دنیا کی عوامی و سیاسی اکثریت اسرائیل سے الریڈی بیزار بیٹھی تھی۔ اور نیتن یاہو گریٹر اسرائیل والا کارڈ بھی دھڑلے سے استعمال کر رہا تھا۔ جس کا مطلب تھا مزید بدامنی، سو دنیا تپی بیٹھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے خلاف کہیں سے رسمی بیان بھی نہیں آیا۔
ایک بہت ہی اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی کوئی نظیر موجود ہے کہ کوئی ایٹمی ملک اپنے کسی غیر ایٹمی دوست ملک کو کھڑے کھلوتے ایٹمی چھتری فراہم کردے ؟ جی ہاں دو نظیریں موجود ہیں۔ نیٹو فریم ورک کے تحت امریکہ کے کئی ایٹمی ہتھیار ترکی سمیت کئی غیر ایٹمی ممالک میں موجود ہیں۔
دوسری نظیر روس نے دو سال قبل تب قائم کی جب اس نے پڑوسی ملک بیلا روس میں ایٹمی ہتھیار پہنچائے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہم نے کوئی نئی روایت قائم نہیں کی۔ وہی کیا ہے جو دو چوہدری پہلے ہی کئے بیٹھے ہیں۔
یوں تو پاک سعودی معاہدے کے بہت سے عالمی اثرات ہیں۔ جن پر بہت کچھ لکھا بھی جا چکا اور آنے والے دونوں میں بھی لکھا جائے گا۔ لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس کی جانب کسی کی بھی توجہ نہیں گئی۔ اس پہلو کی اہمیت چونکہ صرف پاکستان کے لئے ہے سو پاکستان کے باہر سے اس پر بات کا امکان ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس پر ہم پاکستانیوں کو ہی بات شروع کرنی پڑے گی۔
پاکستان جنوبی ایشیا کا ملک ہے۔ یوں اس کی علاقائی سیاست کا محور انڈیا رہا ہے۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو غیر عرب مسلم ممالک میں صرف ہم ہیں جس پر مشرق وسطی کے ممالک کی ہمیشہ خصوصی نظر رہتی ہے۔ مثلا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر وغیرہ کی جتنی دلچسپی ہم میں رہی ہے کسی بھی اور مسلم ملک میں نہیں رہی۔ حتی کہ ترکی، ملیشیا اور انڈونیشیا میں بھی نہیں۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم ان کے محض روایتی دوست نہیں بلکہ ان کے دکھ درد کے لمحوں کے بھی ساتھی ہیں۔ ابھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا دور دور بھی کوئی تصور موجود نہ تھا اور پاکستان ایئر فورس کے پائلٹس دو عرب اسرائیل جنگوں میں شام، مصر، عراق اور اردن کی طرف سے نہ صرف لڑے بلکہ 6 اسرائیلی طیارے بھی گرائے۔ یہ توفیق بلکہ سعادت کسی اور ملک کو حاصل ہوئی ؟
سو عرب ہمارا ایٹمی پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی جان چکے تھے کہ ہم ان کے دفاع کے لئے جان لڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اب یہ تو آپ کسی فوجی سے پوچھئے کہ مورچے کی دوستی کتنی گہری ہوتی ہے۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ یہ خون سے لکھا رشتہ ہوتا ہے۔ اسی چیز کو پیش نظر رکھ کر بھٹو جیسے خارجہ امور کے جینئس کو یہ خیال آیا تھا کہ پاکستان ہے تو جنوبی ایشیا کا ملک مگر اس کی اہمیت مشرق وسطی میں بھی مسلم ہے۔
لہٰذا ہمیں مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اپنے رول کو باقاعدہ شکل دینی ہوگی۔ یہیں سے جنم لیا تھا مشہور زمانہ اسلامی سربراہ کانفرنس کے آئیڈیے نے۔ اگر غور کریں تو بھٹو صاحب سوشلسٹ شناخت رکھتے تھے لیکن انہوں نے عرب ممالک میں سے بھی سب سے زیادہ اہمیت سعودی عرب کو دی تھی۔ شاہ فیصل سے ان کی قربت کوئی سربستہ راز نہیں۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ہم عرب اسرائیل جنگوں میں لڑے ان ممالک کی جانب سے تھے جو سوویت یونین کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم دونوں عرب کیمپوں میں یکساں مؤثر و مقبول تھے۔ لیکن جب دور آیا محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کا تو ان دونوں نے یہ غضب کر ڈالا کہ مشرق وسطیٰ کو دو حصوں بانٹ ڈالا۔
اس پالیسی کے نتیجے میں سوشلسٹ رجحان والے ممالک محترمہ بینظیر بھٹو کے حامی ہوگئے اور سعودی کیمپ والے نواز شریف کے۔ کسی کو یاد ہے جب محترمہ شہید کے پہلے دور حکومت میں نواز شریف ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے تو اسے ناکام بنانے کے لیے فنڈز کس نے فراہم کئے تھے؟ صدام حسین نے بچایا تھا محترمہ کو۔ یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر جب نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو ان کا خارجہ امور کا پہلا قدم ہی یہ تھا کہ عراق کے غالباً چھ سفارتکاروں کو ملک چھوڑ نے کا حکم دیدیا تھا۔
یوں مشرق وسطیٰ میں پاکستانی مفاد پیچھے چلا گیا اور پیپلز پارٹی و نون لیگ کا مفاد مقدم ہوگیا۔ کیا ممالک کی خارجہ پالیسی اس طرح ترتیب دی جاتی ہے؟ ان دونوں رہنماؤں نے ذوالفقارعلی بھٹو اور جنرل ضیاء کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2012ء سے پاکستان کسی بھی کیمپ کا نہ رہا۔ خود سعودیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اس قدر سرد مہری کا شکار ہوگئے کہ پاکستان میں تعینات سعودی سفیر ہفتے میں ایک دو دن ہی پاکستان میں ہوتے۔
یہ ناراضی اور مایوسی کا اظہار تھا۔ بالخصوص ایک زرداری تو بہت ہی بھاری ثابت ہوئے۔ ان کے پہلے دور صدارت میں وہ وہ بلنڈرز ہوئے کہ ساری حدیں کراس ہوگئیں۔ کیا سعودی وہ سب دیکھ نہیں رہے تھے ؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کا مشرق وسطیٰ تصور یہی تھا جس پر زرداری کاربند تھے؟
حقیقت یہ ہے کہ پہلی عراق جنگ میں محترمہ اور جنرل اسلم بیگ کا پاکستان کو فریق بنانا بھی ایک بہت ہی غلط فیصلہ تھا۔ ہمارا رول مشرق وسطیٰ کے دونوں کیمپوں کو جوڑنے والی کڑی کا ہونا چاہیئے تھا۔ ہم ثالث بننے کے بجائے فریق بن گئے۔ یوں آگے چل کر بالآخر ہم مشرق وسطیٰ میں ہی بے اثر بلکہ فالتو ہوگئے۔
نئی نسل کے لئے تو یہ بھی انکشاف ہی ہوگا کہ شام اور عراق جیسے ممالک میں پاک فضائیہ کے ٹرینر ڈیپوٹیشن پر جایا کرتے تھے۔ عرب اسرائیل جنگ کے ہیرو سکوارڈن لیڈر سیف الاعظم کے لیے صدام حسین کو پاکستان سے ریکویسٹ کرنی پڑی تھی کہ عراق میں ان کے قیام کی مدت بڑھائی جائے۔
سو حالیہ معاہدے سے عرب دنیا میں پیدا ہونے والی گرمجوشی کا اعلیٰ ترین استعمال یہ ہوگا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں اپنے کردار کو ایک بار پھر بھٹو والے آئیڈیے پر تشکیل دیں۔ اور مشرق وسطی کے ہر ملک کو خود سے قریب کریں۔ گریٹر اسرائیل سے جڑے اندیشے ہر عرب ملک کو لاحق ہیں۔
اگر ہم ان کا یہ خوف دور کردیں تو یہ احسان وہ بھولیں گے؟ ہم سب کے ساتھ یکساں تعلق کی بھی بات نہیں کر رہے۔ مغرب کے معاملے میں ہماری پالیسی کیا ہے ؟ تعلقات سب سے ہیں مگر امریکا کو ایکسٹرا پروٹوکول دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان کا بڑا ہے۔ سو یہی ہم مشرق وسطیٰ میں بھی کرسکتے ہیں۔
اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کی حیثیت عربوں کے قائد کی ہے۔ ظاہر ہے کہ سعودی عرب سے ہمارے تعلقات کا لیول حسب معمول کچھ اور ہوگا۔ جب سعودیوں کو یہ تسلی ہوگی کہ ہم اس کے قائدانہ رول کا مکمل احترام کرتے ہیں تو دوسرے کیمپ سے دوستانہ تعلقات بڑھانے پر اسے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں ہم اس کے بہت بڑے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
یوں یہ مشترکہ مفادات کا کھیل ہوگا۔ حالیہ پاک سعودی معاہدہ ایک دفاعی معاہدہ ہے۔ اس سے سیاسی امکانات پیدا کرنا ہی ہماری صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوگا۔ پاکستان جیسے فارن پالیسی جینئس کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ بس سیاستدانوں کو تھوڑی عقل دکھانا ہوگی۔ پارٹی مفاد پر ملکی مفاد کو مقدم کرنا ہوگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔