انٹرنیٹ سروس کو درپیش مسائل کیا 5 جی اسپیکٹرم سے حل ہو جائیں گے؟

منگل 23 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگر قانونی اور ریگولیٹری رکاوٹیں دور ہو گئیں تو اس سال دسمبر میں پاکستان میں 5 جی اسپیکٹرم کی نیلامی کا عمل مکمل ہو جائے گا جس سے ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتظار ختم، پاکستان میں 5جی اسپیکٹرم کی نیلامی کی ٹائم لائن کا اعلان ہوگیا

پاکستان میں آئے روز سیکیورٹی کو درپیش مسائل کے پیش نظر موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی جاتی ہے جس کے باعث روزمرہ امور کی انجام دہی تعطل کا شکار ہوجاتی ہے تاہم عام حالات میں بھی ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار زیادہ متاثر کن نہیں۔

موبائل فون جو بظاہر 4 جی انٹرنیٹ شو کرتا ہے لیکن اکثر اوقات اس کی رفتار 3 جی سے بھی کم ہوتی ہے۔ ملک بھر میں سست رفتار انٹرنیٹ کا بنیادی سبب اسپیکٹرم ہے لیکن پہلے جانتے ہیں کہ یہ ہوتا کیا ہے اور وفاقی حکومت 5 جی اسپیکٹرم کب تک متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں منعقدہ اسپیکٹرم ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں اسپیکٹرم کے ذریعے سے ڈیجیٹلائزیشن کے امور پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ بہت اسپیکٹرم کے ذریعے سے ملک میں برآمدات، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک نوکریوں اور معیشت میں اِضافہ کیا جا سکتا ہے۔

اسپیکٹرم کیا ہے؟

اسپیکٹرم بنیادی طور پر ہوا میں موجود ہائی وے ہے جس پر ڈیٹا اور کالز سفر کرتے ہیں جتنی چوڑی اور صاف ہائی وے ہو گی ڈیٹا اتنی ہی آسانی سے بغیر رکاوٹ سفر کرے گا۔

مزید پڑھیے: 5 جی موبائل انٹرنیٹ کی لانچنگ ٹائم لائن میں مزید کتنی تاخیر ہوسکتی ہے؟

ٹیلی کام ایکسپرٹ اسلم حیات کے مطابق ایک ہائی وے ہے جس پر آپ کی آواز اور ڈیٹا سفر کرتا ہے، پرانا لینڈ لائن نظام ریلوے ٹریک کی مانند تھا جس پر ایک وقت میں ایک ہی گاڑی دوڑتی ہے اور اس کا کسی سے مقابلہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ا سپیکٹرم کی مثال ایک موٹروے کی طرح ہے جس پر ایک وقت میں کئی گاڑیاں دوڑ سکتی ہیں، اگر سڑک چوڑی اور کشادہ ہوگی تو گاڑیاں تیزی سے دوڑ سکیں گی اور اگر سڑک تنگ ہو گی تو گاڑیاں سست رفتار سے حرکت کریں گی۔

ماہرین کے مطابق آپ 3 جی، 4 جی اور اب 5 جی کو آپ 3 لین، 4 لین یا 5 لین سے تعبیر کر سکتے ہیں اور جب آپ موبائل سے کال یا ڈیٹا استعمال کرتے ہیں تو آپ کی آواز اور ڈیٹا وائر لیس لہروں کے ذریعے ٹرانسفر ہوتا ہے، یہ لہریں فریکوئنسی پر چلتی ہیں یعنی مخصوص رفتار اور رینج میں حرکت کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: انٹرنیٹ کی بندش، سال 2024 فری لانسرز کے لیے کیسا رہا؟

دنیا میں ہر فریکوئنسی کو اسپیکٹرم کا حصہ کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایف ایم ریڈیو 88 میگا ہرٹز سے 108 میگاہرٹز اسپیکٹرم کے درمیان کام کرتا ہے جبکہ موبائل فون 700، 1800، 2100 میگاہرٹز پر کام کرتے ہیں۔

پاکستان میں 5 جی لانچ میں حائل بڑی رکاوٹ دور

اس ماہ کے آغاز میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ 5 جی کی لانچنگ میں حائل بڑی رکاوٹ دور کر دی گئی ہے۔

دفاعی اداروں کی مدد سے پی ٹی اے نے 700 میگا ہرٹز بینڈ اور 2300 میگاہرٹز بینڈ کا ایک بڑا حصہ خالی کرا لیا ہے۔

 

ملک بھر میں وائرلیس لوکل لوپ سروسز کی ری فریمنگ کے نتیجے میں 3500 میگا ہرٹز بینڈ میں 285 میگا ہرٹز اسپیکٹرم محفوظ کر لیا گیا ہے جو دنیا بھر میں 5 جی ٹیکنالوجی کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا بینڈ ہے اور پاکستان کے لیے بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

اس سے قبل پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ پاکستانی اسپیکٹرم میں پڑوسی ملکوں کی مداخلت تھی، اگر پاکستان کے کسی سرحدی کے سگنلز فعال ہوں تو یہ لہریں قریبی بھارتی یا افغان علاقوں تک بھی پہنچ سکتی ہیں اور اسی طرح وہاں سے فور جی اور فائیو جی آنے والے سگنلز پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے سائبر کامسیک سی ٹی ایف عالمی مقابلہ جیت لیا

ماہرین کے مطابق اس صورتحال کو ’اسپِل اوور‘ کہا جاتا ہے جو نہ صرف سروس میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے بلکہ سیکیورٹی اور آپریشنل نوعیت کے مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔

پاکستان کے تناظر میں یہ مسئلہ بھارت، افغانستان اور ایران کی زمینی سرحدوں پر زیادہ نمایاں رہا جبکہ عمان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ یہ صورتحال سمندری حدود کے قریب دیکھنے میں آئی۔

تاہم یہ بڑی رکاوٹ دور ہونے کے باوجود اسپیکٹرم کی راہ میں کچھ قانونی اور ریگولیٹری مسائل ہیں جن کا حل ضروری ہے۔

اسپیکٹرم لانچ میں حائل رکاوٹیں

گزشتہ 4 دہائیوں سے دنیا کے 14 ممالک کے ٹیلی کام سیکٹر میں خدمات سر انجام دینے والے پرویز افتخار نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسپیکٹرم لانچ میں بنیادی طور پر 2 رکاوٹیں حائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک تو یہ کہ کچھ سال پہلے ایک نجی کمپنی کو 2600 میگا ہرٹز اسپیکٹرم کا لائسنس دیا گیا تھا وہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، وہ اسپیکٹرم واگزار نہیں ہو پا رہا۔

مزید پڑھیں: میرے ہاتھ میں کوئی بٹن نہیں کہ انٹرنیٹ بند کردوں، وزیر مملکت آئی ٹی شزہ فاطمہ

پرویز افتخار کے مطابق دوسرا مسئلہ پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار کے انضمام کا ہے، اس ضمن میں میں گو کہ دونوں پارٹیز راضی ہیں لیکن اس کے لیے ریگولیٹری اپروول چاہیے جو مسابقتی کمیشن دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپروول نہیں ہو پا رہا، اس لیے اگر حکومت اسپیکٹرم نیلامی کا اعلان کرتی ہے، تو پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار دونوں نیلامی میں حصہ نہیں لے پائیں گے۔

پرویز افتخار کا کہنا ہے کہ نیلامی سے قبل مسابقتی کمیشن کی جانب سے ان 2 کمپنیوں کے انضمام پر فیصلہ دیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ غیر یقینی صورتحال ہے جس کی وجہ سے اسپیکٹرم کی نیلامی کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ معیشت اور نظام حکومت کو ڈیجیٹلائزیشن کی جانب لے جانے کا حکومتی ایجنڈا اسپیکٹرم کے بغیر ممکن نہیں، 5 جی اسپیکٹرم زراعت، صنعت، بینکنگ، تعلیم، صحت تمام شعبوں کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ انفرا اسٹرکچر ہے اور مواصلاتی انفرا اسٹرکچر کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

مزید پڑھیے: ایلون مسک کے اسٹار لنک سے پاکستانیوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

پرویز افتخار کے مطابق اسپیکٹرم لانچ ایک الگ چیز ہے اور 5 جی اس اسپیکٹرم پہ چلے گا لیکن اسپیکٹرم لانچ سے آپ کی 4 جی سروسز میں بہت بہتری آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تو 4 جی بھی بہت سست ہے، آپ اسلام آباد سے باہر جائیں تو آپ کا انٹرنیٹ درست طریقے سے کام نہیں کرتا، اس وقت 4 جی کا برا حال ہے۔

5 جی اسپیکٹرم 4 جی سروسز کی بہتری کا ضامن

گزشتہ کئی سالوں سے ٹیلی کمیونیکشن شعبے کے بڑے ناموں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے، ورلڈ بینک، بنگہ دیش کے گرامین بینگ اور کئی بین الاقوامی اداروں کو بطور ماہر خدمات مہیّا کرنے والے اسلم حیات نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اسپیکٹرم کی نیلامی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ان کے مطابق 5 جی اسپیکٹرم کی نیلامی سے بنیادی طور پر ملک بھر میں 4 جی سروسز کے معیار میں بہتری آئےگی جو کہ آنی چاہیے جہاں تک 5 جی کا تعلق ہے تو صنعتی استعمال کی ایک چیز ہے اور اُس کا محدود استعمال ریموٹ آپریشنز، ڈرائیورلیس کاروں یا زیادہ سے زیادہ گیمنگ میں ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے معلومات پر معاشی ماہرین کو خوشگوار حیرت

اسلم حیات نے کہا کہ انہی معاملات سے وابستہ صارفین کو ریئل ٹائم ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے، بنگلہ دیش میں بھی اگر دیکھیں تو 5 جی اسپیکٹرم سے بنیادی طور پر 4 جی سروس کے معیار میں بہتری آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2014 میں جب ٹیلی نار نے اسپیکٹرم میں حصہ لیا تو اس نے 5 میگا ہرٹز خریدا جو اس کے صارفین کی ضروریات کے لیے کم پڑ گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بعد میں اُس نے 8 میگا ہرٹز خریدا، اسی طرح سے جیز جس کے پاس 39 فیصد صارفین ہیں اُس نے 2017 میں مزید اسپیکٹرم خریدا۔

اسلم حیات کے مطابق اسپیکٹرم کی بہتری کے 2 طریقے ہیں، ایک طریقہ یہ ہے کوئی کمپنی مزید اسپیکٹرم خرید کر صارفین کو بہتر سہولیات دے، جبکہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جہاں ایک موبائل ٹاور نصب ہے وہاں 2 ٹاور لگا دیے جائیں۔

اسپیکٹرم کی نیلامی میں حائل رکاوٹیں

5 جی اسپیکٹرم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے ضمن میں اسلم حیات کا مؤقف تھا کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں اگر حکومت اسے لانچ کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، 2016 اور 2017 میں جب نیلامی کی گئی تو نیلامی میں ایک ایک کمپنی نے ہی حصّہ لیا تھا تو یہ کہنا کہ نیلامی میں سب کا موجود ہونا ضروری ہے قرین از قیاس وضاحت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کو بتایا جا رہا ہے کہ مسابقتی کمیشن میں پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار کے زیرالتوا انضمام کا معاملہ حائل ہے، کسی کمپنی کے پاس پہلے سے موجود اسپیکٹرم اور اُس سے متعلق عدالتی مقدمات حائل ہیں، جی ایس ایم اے رپورٹ میں صارفین کے لیے لاگت سے متعلق مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے‘۔

اسلم حیات نے کہا کہ اِن وجوہات میں زیادہ وزن نہیں کیونکہ 2014 میں حکومت نے 4 کمپنیوں کو اسپیکٹرم دیا، جبکہ 2016 اور 2017 میں ایک ایک کمپنی نے نیلامی میں حصّہ لیا۔

یہ بھی پڑھیے: سینیٹ کمیٹی کا اسپیکٹرم کی نیلامی میں تاخیر اظہار تشویش، سائبر فراڈز پر فوری اصلاحات کا مطالبہ

ان کا کہنا ہے کہ اگر نیلامی میں 3 کمپنیاں حصہ لیں گی تو 2 بلاکس کی نیلامی کی جائے گی، اگر 2 ہوں گی تو ایک بلاک نیلام کیا جائے گا جس سے ٹیلی کام آپریٹرز کے نیٹ ورک پر زیادہ لوڈ آئے گا اور سروسز متاثر ہوں گی۔

اسپیکٹرم کی نیلامی معیشت کے لیے ناگزیر کیوں؟

ٹیلی کام ایکسپرٹ اسلم حیات نے سمجھتے ہیں کہ سنہ 2014 میں اگر اسپیکٹرم نیلام نہ کیا جاتا تو ملک میں اوبر، کریم، دراز اور اِس طرح کی بے شمار آن لائن کمپنیوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور اسی طرح نہ ہی کسی نئے کاروبار کا آغاز ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلی کام سیکٹر ملکی معیشت کا گروتھ انجن ہے، اس وقت پاکستان میں دنیا کی چوتھی بڑی فری لانسرز کمیونٹی موجود ہے جو ملکی معیشت میں حصہ ڈال رہی ہے، کورونا کے دنوں میں اگر ملک میں اسپیکٹرم نہ ہوتا تو زندگی بالکل رک جاتی۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے سائبر کامسیک سی ٹی ایف عالمی مقابلہ جیت لیا

حکومت اس وقت اپنے اڑان پاکستان منصوبے کے ذریعے ’ڈیجیٹل معیشت اور ڈیجیٹل گورننس‘ کی طرف پیش قدمی کی خواہاں ہے اور ماہرین کے مطابق اس ضمن میں درکار پیشرفت کا بھی اسپیکٹرم کے بغیر تصور ممکن نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

سعودی مفتیِ اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ انتقال کرگئے

بھارتی گلوکار کمار سانو مشکل میں، سابق اہلیہ نے سنگین الزامات لگادیے

مستونگ میں ریلوے ٹریک کے قریب دھماکا، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا

پاکستان کی مشکلات میں اضافہ، آخری 5 ٹی20 میچوں میں سری لنکا کے خلاف کیا نتیجہ رہا؟

برطانیہ کا نیا اقدام: ٹاپ ٹیلنٹ کے لیے ویزا فیس ختم کرنے پر غور

ویڈیو

اسلام آباد کے نئے بلیو ایریا میں کیا سہولیات ہیں؟

لاہور میں ٹریفک چالان جمع نہ کروانے پر کاریں، بائیکس نیلام ہوں گی؟

اسلام آباد میں قتل کی انوکھی واردات میں ملوث جوڑا 3 سال بعد کیسے گرفتار ہوا؟

کالم / تجزیہ

مریم نواز بہت بدل گئی ہیں

دفاعی معاہدہ، سیاسی امکانات

چوکیدار