سپریم کورٹ نے ایک طویل قانونی جنگ کے بعد قتل کیس کے نامزد ملزم مشتاق احمد کو بری کر دیا۔
عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے نے ایک مرتبہ پھر اس سوال کو اجاگر کر دیا ہے کہ سنگین مقدمات میں انصاف کے تقاضے کیسے پورے کیے جائیں اور گواہوں کے بیانات کس حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔
ٹرائل کورٹ نے ملزم مشتاق احمد کو سزائے موت سنائی تھی، جبکہ شریک ملزم اشفاق احمد کو عمر قید اور صدیق کو بری کر دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ ہائیکورٹ جج کے بیٹے کو قتل کرنے کا کیس: سپریم کورٹ نے مرکزی ملزم کو بری کردیا
بعد ازاں ہائی کورٹ نے مشتاق احمد کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا اور اشفاق احمد کی سزا چھ سال کر دی، جو وہ پوری کر چکا ہے۔
جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سرکاری وکیل رانا کاشف نے مؤقف اپنایا کہ گواہوں نے واضح طور پر بیان دیا تھا کہ گولی اشفاق احمد نے چلائی تھی، نہ کہ مشتاق نے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: 34 سال پرانے قتل کیس میں نامزد ملزم کی سزا کے خلاف اپیل منظور
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مدعی پارٹی علاقے کے بدمعاش ہیں اور ان کے خلاف قتل کے چالیس مقدمات کا ریکارڈ موجود ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے کئی موقعوں پر طنزیہ مگر معنی خیز ریمارکس دیے۔ انہوں نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ مشتاق اور اشتیاق کا آپس میں کیا تعلق ہے، جواب ملا کہ دونوں بھائی ہیں۔
جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ بولے؛ آپ اپنے بھائی کے خلاف بات کر رہے ہیں، تاہم وکیل نے وضاحت دی کہ وہ صرف اپنے موکل کی حد تک بات کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری، ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار
اسی دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک شخص تہجد میں دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ یہ لوگ سو رہے ہیں، میری دعائیں قبول فرما، ساتھ سویا ہوا شخص جاگ گیا اور کہنے لگا کہ اپنے لیے دعائیں مانگو، ہماری شکایتیں نہ لگاؤ۔ جسٹس کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی یہی کام کر رہے ہیں۔
عدالت نے تمام ریکارڈ اور گواہوں کے بیانات کا جائزہ لینے کے بعد قرار دیا کہ مقدمے میں شواہد براہِ راست مشتاق احمد پر لاگو نہیں ہوتے۔ یوں سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کے متضاد فیصلوں کو بدلتے ہوئے مشتاق احمد کو بری کردیا۔