امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ٹک ٹاک کی امریکی آپریشنز کی فروخت کا منصوبہ امریکی قانون کی شرائط پوری کرتا ہے۔ اس قانون کے مطابق، اگر ایپ کے چینی مالکان اپنی ملکیت فروخت نہ کرتے تو امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی جاتی۔
نائب صدر جے ڈی وینس کے مطابق، نئی امریکی کمپنی کی مالیت قریباً 14 ارب ڈالر ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے قانون کے نفاذ کو 16 دسمبر تک مؤخر کر دیا ہے تاکہ ٹک ٹاک کے امریکی اثاثوں کو عالمی پلیٹ فارم سے علیحدہ کیا جا سکے، مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو شامل کیا جا سکے اور اس منصوبے کے لیے چینی حکومت کی منظوری بھی حاصل ہو سکے۔
مزید پڑھیں: ٹک ٹاک کی فروخت کا معاملہ: صدارتی حکمنامے پر آج دستخط متوقع
وینس نے کہا کہ چینی جانب سے کچھ مزاحمت ضرور تھی لیکن ہمارا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایپ کو چلتے رہنے دیا جائے اور امریکی صارفین کے ڈیٹا کو قانون کے مطابق محفوظ بنایا جائے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ میں نے صدر شی جن پنگ سے بات کی، انہیں بتایا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور انہوں نے کہا آگے بڑھیں۔ چینی سفارتخانہ واشنگٹن نے تاحال اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
ٹک ٹاک کے امریکا میں 17 کروڑ صارفین ہیں اور صدر ٹرمپ نے اس ایپ کو گزشتہ سال اپنی دوبارہ کامیابی میں مددگار قرار دیا تھا۔ ان کے ذاتی اکاؤنٹ پر 1 کروڑ 50 لاکھ فالورز موجود ہیں، جبکہ وائٹ ہاؤس نے بھی گزشتہ ماہ اپنا باضابطہ ٹک ٹاک اکاؤنٹ بنایا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹک ٹاک معاہدے کا اعلان، کونسی امریکی کمپنیاں ٹک ٹاک خرید سکتی ہیں؟
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ کمپنی مکمل طور پر امریکی کنٹرول میں ہوگی۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ مائیکل ڈیل، روپرٹ مرڈوک اور 4 سے 5 عالمی سطح کے سرمایہ کار اس معاہدے کا حصہ ہوں گے۔
JUST IN: President Trump says TikTok will be “American-operated all the way,” adds “I very much appreciate” Chinese President Xi approving the deal pic.twitter.com/lO8fKAzXMg
— Fox News (@FoxNews) September 25, 2025
دوسری جانب ریپبلکن ارکانِ کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ معاہدے کی تفصیلات سامنے لائی جائیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس سے چین سے مکمل علیحدگی ہو۔ جب تک تفصیلات طے نہیں ہوتیں، یہ ضروری ہے کہ یہ معاہدہ امریکی صارفین کو چین سے منسلک گروپوں کے اثر و رسوخ اور نگرانی سے محفوظ رکھے۔