آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر ریاست بھر میں ہڑتال جاری ہے، تاہم ریاست کے مختلف علاقوں میں کچھ مقامات پر تاجروں نے دکانیں کھول رکھی ہیں۔
مظفرآباد میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے امن مارچ نکالا اور اس موقع پر ایکشن کمیٹی کے کارکنان اور مسلم کانفرنس کے امن مارچ کے شرکا آمنے سامنے آگئے۔
مسلم کانفرنس کے امن مارچ پر شرپسندوں کا حملہ اور فائرنگ قابل مذمت ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شرپسند بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کے لئے لاشوں کی سیاست کرنا چاہتے ہیں ۔ #AzadKashmir pic.twitter.com/o8MqmITuQI
— Dr Irfan Ashraf (@irfanashraf36) September 29, 2025
مزید پڑھیں: آزاد کشمیر میں ایکشن کمیٹی کی کال پر ہڑتال، انٹرنیٹ سروسز معطل، نظام زندگی مفلوج
ذرائع کے مطابق عوامی ایکشن کمیٹی کے مسلح شرپسند عناصر کی فائرنگ کے نتیجے میں 11 شہری زخمی ہو گئے، جبکہ بٹل میں ایمبولینس کا راستہ روکے جانے کے باعث ایک بزرگ شہری محمد صادق جان کی بازی ہار گئے۔
ذرائع کے مطابق عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان نے نہ صرف سڑکیں بند کیں بلکہ پولیس اہلکاروں پر غلیلوں اور ہتھیاروں سے حملے بھی کیے۔ ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ کمیٹی کے عزائم ابتدا سے ہی اشتعال انگیز اور پرتشدد تھے۔
علاقے کے عوام نے بزرگ شہری کی موت پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا اور عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں زبردستی ہٹا دیں۔
ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی ریلیوں میں اشتہاری مجرمان بھی موجود ہیں، جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ شرپسندوں اور کمیٹی کے لیڈران کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔
عوامی حلقوں نے کمیٹی کی ہلڑ بازی، توڑ پھوڑ اور درندگی کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری کے لیے میدان میں نکل چکی ہے، جبکہ دوسری جانب حکومت کا دعویٰ ہے کہ آزاد کشمیر میں افراتفری پھیلانے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، اور ان لوگوں کو ’را‘ کی جانب سے فنڈنگ کی جارہی ہے۔
وفاقی وزرا کے ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے مذاکرات ناکام کیوں ہوئے؟
کچھ روز قبل وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی ہدایت پر وزیر امور کشمیر امیر مقام اور طارق فضل چوہدری مظفرآباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے مذاکرات کیے، اور 38 میں سے 36 مطالبات تسلیم بھی کرلیے، لیکن اس کے باوجود ایکشن کمیٹی مذاکرات سے بھاگ گئی اور بات چیت کے عمل کو سبوتاژ کردیا۔
وفاقی وزرا کا ایکشن کمیٹی کے ساتھ جن دو نکات پر اتفاق رائے نہ ہو سکا ان میں ایک آزاد کشمیر اسمبلی میں مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں کا خاتمہ ہے، جبکہ دوسرا مطالبہ اشرافیہ کی مراعات کم کرنے سے متعلق ہے۔
اس سے قبل ایکشن کمیٹی نے گزشتہ برس بھی احتجاج کیا تھا جس کے نتیجے میں حکومت پاکستان نے مداخلت کرتے ہوئے 23 ارب روپے کی گرانٹ جاری کی تھی اور یوں آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی گئی تھی۔
آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو سختی سے ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ایکشن کمیٹی سے دور رہیں۔ کوٹلی میں ایکشن کمیٹی کی مہم چلانے پر پیپلز پارٹی کے ایک اہم عہدیدار کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔