ٹرمپ امن فارمولا : کون کہاں کھڑا ہے؟

بدھ 1 اکتوبر 2025
author image

آصف محمود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غزہ کے حوالے سے ٹرمپ فارمولے پر کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کا اچھی طرح جائزہ  لے لینا چاہیے۔  اگر حماس نے بھی اسے فوری طور پر رد کرنے کی بجائے باہمی مشاورت کے بعد اس پر رائے دینے کی بات کی ہے تو ہمیں بھی اس کے تمام پہلوؤں کو دیکھ لینے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔

بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ معاہدے جب بھی ہوں، اصول کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ یہ فریقین کی قوت ہوتی ہے  جو معاہدوں کی صورت گری کرتی ہے۔ قوت کا یہ فرق ہمارے سامنے ہے۔ جب فرق اتنا زیادہ ہو تو امن فارمولا  مثالی نہیں ہو سکتا۔ مثالی معاہدے صرف  برابری کی سطح پر ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

یہ فارمولا کن حالات میں آیا، یہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ 3 سال اسرائیل نے غزہ پر آتش و آہن برسا کر اسےادھیڑ کر رکھ  دیا۔ یہ انسانی تاریخ کا ایسا المیہ ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔ لیکن اس سارے عرصے میں کوئی قوت ایسی نہیں تھی جو اسرائیل کا ہاتھ پکڑ سکتی۔ نہ اسے کوئی ڈر ہے نہ کسی کا خوف اور نہ ہی کسی جواب دہی کا کوئی خطرہ۔ اس کے سامنے بین الاقوامی قانون بھی بے بس ہےاور اقوام متحدہ بھی۔ عالمی عدالت انصاف سے لے کر سلامتی کونسل تک، کسی کی جرات نہیں کہ اسرائیل کا کچھ بگاڑ سکے۔

دنیا میں جن ابھرتی ہوئی قوتوں کا بہت شور تھا کہ وہ اب یونی پولر نظام کو ختم کر دیں گی وہ بھی لاتعلق سی بیٹھی زبان حال سے یہی کہہ رہی ہیں کہ یہ بھاری پتھر اٹھانا ہمارے بس میں تو نہیں۔

اب سوال یہ نہیں کہ اس معاہدے میں اسرائیل کے لیے کیا کچھ ہے۔ سوال یہ  بھی ہے کہ اس میں  فلسطینیوں کے لیے بھی کچھ ہے یا نہیں؟

مزید پڑھیے: عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں

فلسطینیوں کا سب سے بڑا مسئلہ حق خود ارادیت کا ہے۔ یہ آفاقی حق ہے اور اس کی نفی نہیں ہو سکتی۔ تو کیا اس امن فارمولے میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ امن فارمولے کے 20ویں نکتے میں حق خودا رادیت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے اور فلسطینی ریاست کے حق کو بھی۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ غزہ کا کیا بنے گا؟ اس امن فارمولے کے تحت اسرائیل غزہ پر قبضہ نہیں کرے گا۔ مخلتف مراحل میں اسے غزہ خالی کرنا ہو گا۔

تیسرا سوال غزہ کے شہریوں سے متعلق ہے۔ امن فارمولے کے تحت غزہ کے شہری غزہ میں ہی رہیں گے۔ انہیں وہاں سے نہیں نکالا جائے گا۔ جو شہری اپنی مرضی سے کہیں اور جائے گا اس کا واپسی کا حق محفوظ ہو گا اور اسے واپس آنے سے نہیں روکا جائے گا۔ (غالب امکان یہی ہے کہ یہ چیز برائے وزن بہت ہے کیونکہ واپسی کا حق تو اس ساڑھے 7 لاکھ لوگوں  کو بھی دیا گیا جو اسرائیل کے قیام کے وقت فلسطین سے بے گھر ہوئے لیکن پھر وہ کبھی واپس نہ لوٹ سکے۔  تاہم یہ حق امن فارمولے میں  موجود ہے اور ان حالات میں اس کا موجود ہونا بھی اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے۔)

چوتھا سوال غزہ میں قحط کی صورت حال سے متعلق ہے۔ امن فارمولے میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں امداد بغیر کسی رکاوٹ کے جائے گی اور اقوام متحدہ اور ہلال احمر کی نگرانی  میں  جائے گی۔

تاہم تصویر کا دوسرا رخ بھی قابل غور ہے۔  اس کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔

امن فارمولے میں حماس سے غیر مسلح ہونے کا کہا گیا ہے، یہ وہی انتداب کے زمانے کا فارمولا ہے کہ مسلمان غیر مسلح ہوں اور فریق ثانی کو ہر طرح کے اسلحے سے لیس کر دیا جائے۔ اب بھی یہ اصول صرف حماس کے لیے نہیں ہے۔ مغربی کنارے میں فلسطین اتھارٹی کو بھی فوج رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ جو قابض ہےا س کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں۔ جو مقبوضہ ریاست ہے اسے غیر مسلح ہونے کا کہا گیا ہے۔ جو سلامتی کونسل کے دیے گئے مزاحمت کے حق سے متصادم ہے۔

مزید پڑھیں: قطر پر حملہ، چین کہاں ہے؟

امن فارمولے میں غزہ سے اس کے پڑوسیوں کو لاحق خطرے کی بات کی گئی ہے  اور تکرار سے کی گئی ہے، لیکن اسرائیل سے اس کے پڑوسیوں کو لاحق خطرے کی بات نہیں کی گئی۔ حالانکہ اسرائیل پورے مشرق وسطی کے لیے خطرہ ہے۔

اسی طرح مسلمان ممالک سے حماس کے طرز عمل کے حوالے سے آئندہ کے لیے  ضمانت مانگی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اسرائیل کی ضمانت کون دے گا۔ کیوں کہ ا سرائیلی وزیر اعظم نے تو ابھی سے اعلان کر دیا ہے کہ اسرائیل غزہ خالی نہیں کرے گا۔ کیا یہ عملاً اس امن فارمولے کو ٹھکرانے والی بات نہیں؟

اسی طرح امن  فارمولا یہ تو بتاتا ہے کہ اگر حماس نے فارمولا قبول نہ کیا تو اس کے نتائج یہ ہوں گے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اگرا سرائیل نے اسے قبول نہ کیا تو اسرائیل کے لیےاس کے نتائج کیا ہوں گے۔

شور ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ معاہدے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ۔ مسلم ممالک کا مؤقف البتہ واضح ہے کہ دو ریاستی حل کی ایک ہی شکل ہے کہ مشرقی یروشلم فلسطین کا دارالحکومت ہو۔ اسحاق ڈار نے بھی یہی بات کی ہے اور سعودی حکومت کا مؤقف بھی یہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کیا عمران خان کو معافی مانگ لینی چاہیے؟

معاہدے کے پہلو پر بات ہونی چاہیے مگر افراط و تفریط سے اجتناب ضروری ہے۔  چیزوں کی ترتیب درست رہنی چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

اہم شعبوں میں شیئرز کی فروخت کا دباؤ، اسٹاک مارکیٹ گراوٹ سے دوچار

سزا یافتہ افراد الیکشن کمیشن یا پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتے، پشاور ہائیکورٹ

قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی سے ایتھوپیا کے سفیر ڈاکٹر جمال بکر عبداللّٰہ کی الوداعی ملاقات

ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف متنازعہ ٹویٹ کیس کی سماعت، فردِ جرم عائد لیکن کارروائی مؤخر

خیبر پختونخوا سے مری آتے ہوئے لگتا ہے جیسے کسی اور ملک میں آگئے، مریم نواز

ویڈیو

مسلم سربراہان کے اصرار پر غزہ مسئلے کا حل نکلا، پورے معاملے میں سعودی عرب اور پاکستان کا کردار کلیدی تھا، حافظ طاہر اشرفی

قلم سے لکھنے کا کھویا ہوا فن، کیا ہم قلم سے لکھنا بھول گئے ہیں؟

جرمنی کا پیشہ ورانہ تعلیمی پروگرام: اس تربیتی پروگرام کے دوران کتنا وظیفہ ملتا ہے؟

کالم / تجزیہ

افغانستان میں انٹرنیٹ کی بندش، پاکستان کے لیے موقع، افغانوں کے لیے مصیبت

غزہ کے لیے مجوزہ امن معاہدہ: اہم نکات، مضمرات، اثرات

کھیل سے جنگ