فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے میں ترمیم کا مطالبہ کردیا۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق امن منصوبے میں شامل بعض شقوں پر تحفظات رکھتی ہے اور گروپ کی قیادت ان میں ترامیم کی خواہاں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عرب اسلامی ہنگامی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر
ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس منصوبے میں شامل ان شقوں پر نظرثانی چاہتی ہے جن کا تعلق اسلحہ چھوڑنے اور حماس و اس سے منسلک گروہوں کے ارکان کو غزہ سے نکالنے سے ہے۔
فلسطینی ذریعے نے مزید بتایا کہ حماس کی قیادت اس بات کی بھی خواہش رکھتی ہے کہ اسرائیل کے غزہ سے مکمل انخلا کے لیے بین الاقوامی ضمانتیں دی جائیں، اور یہ یقین دہانی بھی کرائی جائے کہ غزہ کے اندر یا باہر ان کے رہنماؤں کو ٹارگٹ کر کے قتل نہیں کیا جائے گا۔
اس وقت فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر مزید غور کررہی ہے، جبکہ اسرائیل نے غزہ سٹی پر حملے تیز کردیے ہیں۔
منگل کے روز صدر ٹرمپ نے حماس کو کہا تھا کہ وہ اس منصوبے پر 3 یا 4 دن کے اندر جواب دے، جسے انہوں نے اس ہفتے اسرائیلی وزیرِ اعظم بیامین نیتن یاہو کے ساتھ مل کر پیش کیا تھا۔ نیتن یاہو نے اس تجویز کی حمایت کی ہے، جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطینی عسکری گروہ کے درمیان قریباً 2 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔
ایک فلسطینی اہلکار جو حماس کی دیگر دھڑوں کے ساتھ مشاورت سے واقف ہے، نے رائٹرز کو بتایا کہ منصوبے کو قبول کرنا تباہی ہے، اور اسے رد کرنا بھی ایک اور تباہی، یہاں صرف کڑوی گولیاں ہی ہیں، لیکن یہ منصوبہ نیتن یاہو کا ہے جسے ٹرمپ نے زبان دی ہے۔
انہوں نے کہاکہ حماس جنگ کے خاتمے اور نسل کشی کو روکنے کے لیے پرعزم ہے، اور وہ ایسے انداز میں جواب دے گی جو فلسطینی عوام کے اعلیٰ مفادات کا تحفظ کرے گا، تاہم انہوں نے تفصیل نہیں بتائی۔
اسرائیلی بمباری جاری، شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے لوگوں کو جنوب کی طرف منتقل ہونے کا حکم دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اب شمال کی طرف واپسی کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ غزہ سٹی شدید بمباری کی زد میں ہے۔
غزہ کے مقامی صحت حکام کے مطابق بدھ کے روز اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 17 افراد شہید ہوئے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غزہ سٹی سے تھا۔ رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے رات بھر رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا۔
شمال مغربی غزہ سٹی کے قدیمی علاقے میں ایک حملے میں 7 افراد مارے گئے، جبکہ شہر کے ایک اور علاقے میں اسکول میں پناہ لینے والے 6 افراد ایک علیحدہ حملے میں شہید ہوئے۔
ایک نئے اقدام کے تحت اسرائیلی فوج نے بدھ سے ساحلی سڑک کے ذریعے جنوب سے شمال کی طرف جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ تاہم یہ راستہ جنوبی سمت جانے والوں کے لیے کھلا رہے گا۔
غزہ سے لوگوں کی مستقل بے دخلی کے خدشات مزید گہرے ہوگئے
گزشتہ ہفتوں میں فوج کی جانب سے غزہ سٹی کے محاصرے میں شدت آنے کے باعث جنوب سے شمال کی طرف جانے والوں کی تعداد بہت کم رہی ہے۔ تاہم آج کے فیصلے سے ان لوگوں پر دباؤ بڑھے گا جو ابھی تک غزہ سٹی میں موجود ہیں، اور ساتھ ہی ان لاکھوں افراد کی واپسی رک جائے گی جو پہلے ہی جنوب کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں، جس سے غزہ میں مستقل بے دخلی کے خدشات مزید گہرے ہو جائیں گے۔
یہ اقدام جنوبی علاقوں سے شمال میں اشیائے خورونوش کی منتقلی کو بھی روک دے گا، جس سے غزہ سٹی میں خوراک کی قلت مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
ایسا ہی ایک قدم جنگ کے ابتدائی مہینوں میں بھی اٹھایا گیا تھا، جب شمال اور جنوب کو مکمل طور پر الگ کر دیا گیا تھا، جسے بعد میں جنوری میں ایک عارضی جنگ بندی کے دوران کچھ نرمی دی گئی تھی۔
ٹرمپ کے امن منصوبے پر حماس کا تاحال کوئی ردعمل سامنے نہ آیا
حماس نے تاحال ٹرمپ کے منصوبے پر کوئی ردعمل نہیں دیا، جس میں عسکری گروہ سے باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی، ہتھیار ڈالنے، اور مستقبل میں غزہ کے نظم و نسق میں کوئی کردار نہ رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل بالآخر غزہ سے انخلا کرے گا، لیکن اس کے لیے کوئی وقت کا تعین نہیں کیا گیا۔ حماس طویل عرصے سے مطالبہ کرتی آئی ہے کہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کو مکمل طور پر غزہ سے نکلنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
غزہ میں موجود تین چھوٹے عسکری فلسطینی گروہوں نے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، جن میں سے دو حماس کے اتحادی بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تجویز فلسطینی مقصد کو تباہ کر دے گی اور اسرائیل کے غزہ پر قبضے کو بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت دے گی۔
متعدد عالمی رہنما ٹرمپ کے منصوبے کی کھل کر حمایت کر چکے ہیں۔ منگل کو ایک ذریعے نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے مفادات کی طرف بہت زیادہ جھکا ہوا ہے اور حماس کے اہم مطالبات کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتا۔