فلسطینی صحافی پلیسٹیا العاقَد کی عمر اکتوبر 2023 میں 21 سال تھی جب غزہ میں اس کے گھر پر اسرائیل نے بمباری کی۔ اس نے 45 دن جنگ کے آغاز میں غزہ میں تباہی کو دستاویزی شکل دی، اس کے بعد اسے آسٹریلیا منتقل کردیا گیا جہاں اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی، اس کی پہلی کتاب ’دی آئز آف غزہ‘ اے ڈائری آف ریزیلینس اس دوران کی ڈائری پر مبنی ہے جو اس نے جنگی حالات میں لکھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری، ممتاز فلسطینی شاعرہ بھی شہید
ٹین ووگ سے گفتگو کرتے ہوئے پلیسٹیا العاقَد نے کہا کہ کتاب کے لیے اپنی ڈائری دوبارہ پڑھتے وقت وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی، جب اسے یاد آیا کہ وہ پناہ گاہ سے پناہ گاہ بدل رہی تھی، اپنے دوستوں اور اہلخانہ کی خبر لینے کی کوشش کررہی تھی اور اردگرد پھیلی وحشت کو سمجھنے میں ناکام تھی۔ اس نے کہا ’جب بھی پڑھتی ہوں تو یقین نہیں آتا، کیا یہ سچ ہے؟ کیا میں نے واقعی یہ سب جیا؟ کیا اب بھی ہزاروں لوگ غزہ میں وہی کچھ جھیل رہے ہیں؟‘
انٹرویو میں نوجوان مصنفہ نے غزہ کی صورتحال کو تنازع کہنے کے تصور کو رد کرتے ہوئے اسے نسل کشی قرار دیا۔ اس نے کہا کہ اسے تنازع کہنا بزدلی ہے اور پوچھا کہ اگر یہ صرف اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی ہے تو پھر بچے، خواتین، بوڑھے اور مرد کیوں مارے جارہے ہیں اور بھوکے کیوں مررہے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: برطانوی پابندی کے باوجود آئرش مصنفہ سیلی رونی کی فلسطین ایکشن کے ساتھ یکجہتی
اپنی ڈائری میں اس نے لکھا کہ جنگ 18 اکتوبر 2023 کو اس وقت ختم ہوئی جب اسرائیل نے ایک اسپتال پر بمباری کر کے 500 افراد کو ایک ہی حملے میں مار ڈالا۔ اس نے کہا کہ اسے لگا تھا کہ یہ بربریت دنیا کو مداخلت پر مجبور کرے گی لیکن یہ تو محض آنے والے واقعات کی شروعات تھی۔
العاقَد نے اس بات پر سخت غصہ ظاہر کیا کہ میڈیا نے فلسطین کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم ایک ڈسٹوپیائی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں اور صحافیوں کو احتیاط برتنی پڑتی ہے کہ وہ ان کی موت کی خبر کیسے دیں تاکہ انہیں خاموش یا شیڈو بین نہ کر دیا جائے۔
مصنفہ نے سوال اٹھایا کہ دنیا فلسطینیوں سے کیوں توقع رکھتی ہے کہ وہ کامل متاثرین ہوں اور بتایا کہ اس نے متعدد انٹرویوز دیے جو نشر نہیں ہوئے یا ان کی باتوں کو توڑ مروڑ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی صحافی بسان عودہ نے ایمی ایوارڈ جیت لیا
انہوں نے کہا اسے دنیا کے نوجوانوں میں امید ملی، خاص طور پر امریکی طلبہ میں جو اس کی قوم کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ ’مجھے خوشی ہے کہ دنیا اب ہمیں اور ہماری جدوجہد کو جانتی ہے، لیکن میری خواہش ہے کہ ہم ایسی دنیا میں رہتے جہاں دنیا کو ہمیں یا ہماری جدوجہد کو جاننے کی ضرورت ہی نہ ہوتی، یا یہ کتاب لکھی ہی نہ جاتی۔‘
اس نے کہا کہ شروع میں اسے لگا تھا کہ اسرائیلی مظالم پر بات کرنا بیرون ملک غزہ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوگا، مگر اب وہ سمجھتی ہے کہ وہ سب سے زیادہ آزاد اپنے گھر میں تھی کیونکہ غزہ کے باہر آپ صرف ایک وزیٹر ہیں۔ العاقَد نے کہا کہ اس نے اپنی کتاب کے فروغ کے لیے امریکی ویزا کے لیے درخواست دینے کی زحمت بھی نہیں کی کیونکہ اس کے مسترد ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔
غزہ کے ناقابلِ برداشت حالات پر بات کرتے ہوئے صحافی نے ٹین ووگ کو بتایا کہ بنیادی اشیا تقریباً ناپید تھیں اور جو دستیاب تھیں وہ ناقابلِ برداشت مہنگے داموں فروخت ہو رہی تھیں۔ لوگوں کو سونے کے لیے ٹینٹ نہیں مل رہے تھے اور جنہیں ٹینٹ مل گئے وہ صاف باتھ روم نہیں ڈھونڈ پاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مریم ابو دقہ، اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والی خاتون صحافی کون ہیں؟
العاقَد نے کہا ’دل توڑنے والی بات ہے کہ غزہ میں بچوں کو بچہ بننے کی اجازت نہیں، نوجوانوں کو نوجوان بننے کی اجازت نہیں، کیونکہ والدین کے مارے جانے کے بعد بہتوں کے کندھوں پر بڑوں کی ذمہ داریاں آ پڑی ہیں۔‘
مصنفہ نے کہا کہ ’نسل کشی نے ہمیں اس زندگی پر شکر گزار بنا دیا جو اس سے پہلے تھی، چاہے وہ کامل نہیں تھی‘۔ اس سے جب عوامی تقریبات میں کفایہ پہننے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے مزید وضاحت سے گریز کیا اور کہا کہ ’تاریخ 7 اکتوبر سے شروع نہیں ہوئی، مگر آپ نسل کشی کے وقت اپنی ثقافت اور اپنی قوم کی بات نہیں کرسکتے‘۔
ایسی داستانوں کے سامنے آنے کے باوجود، جو پڑھنے والوں کو ہلا دیتی ہیں، غزہ کے لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پانے کی اطلاعات ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ غزہ پر بمباری بند کی جائے۔
اسرائیل سے آنے والی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی ڈیفنس فورسز غزہ میں جارحانہ کارروائیوں کو کم کرنے کی تیاری کررہی ہیں جبکہ دنیا اس تشدد کے اختتام کی امید کر رہی ہے جس نے 729 دنوں میں 66 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لی ہے۔