سعودی عرب اور پاکستان: تابناک ماضی تابندہ مستقبل

پیر 6 اکتوبر 2025
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات محض دو ریاستوں کے سفارتی روابط نہیں، بلکہ دو دلوں، دو تہذیبوں اور دو ایمانوں کا رشتہ ہیں، ایسا رشتہ جو عقیدت، احترام اور اعتماد کے بندھن سے بندھا ہوا ہے۔ یہ داستان اس وقت شروع ہوئی جب پاکستان منصۂ شہود پر بھی نہیں تھا، مگر نجد و حجاز کے دل میں اُس کے لیے محبت جاگ اٹھی تھی۔

1940 میں، قیامِ پاکستان سے سات برس قبل، سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود رحمہ اللہ نے اپنے صاحبزادے، ولی عہد شاہ سعود کو ممبئی اور کراچی کے دورے پر روانہ کیا تاکہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ ہوں۔ وہ سفر محض سفارتکاری نہیں تھی، بلکہ دو دھڑکتے ہوے دلوں کے درمیان پہلی دستک تھی۔ اسی لمحے عرب قیادت کے دل میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اخوت اور ہمدردی کا چراغ روشن ہوا، جو آج تک نہیں بجھا۔

پھر 1943 آیا، جب بنگال قحط سے کراہ رہا تھا۔ لاکھوں لوگ بھوک کے دہانے پر تھے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی اپیل پر شاہ عبدالعزیز نے دس ہزار پاؤنڈ بطور امداد بھجوائے۔ وہ لمحہ گویا اس نظریاتی رشتے کی پہلی گواہی تھا جو پاکستان کے ظہور سے پہلے حجازِ مقدس سے جڑ چکا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد یہ رشتہ الفاظ سے معاہدے تک پہنچا۔ جدہ میں 25 نومبر 1951 کو دوستی کا تاریخی معاہدہ ہوا۔ 15 اکتوبر 1952 کو شاہ عبدالعزیز نے اس کی توثیق کی، اور 3 مارچ 1953 کو شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے باضابطہ طور پر اس پر دستخط کیے۔ یوں اس دوستی کو آئینی اور مستقل بنیاد فراہم ہوئی، ایسی بنیاد جو وقت کے ہر طوفان میں قائم رہی۔

اس رشتے کی گہرائی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز کے سوا سعودی عرب کے تمام بادشاہان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ شاہ سعود 1954 میں تشریف لائے، شاہ فیصل نے 1955، 1966 اور 1974 میں تین بار پاکستان کی سرزمین کو شرفِ زیارت بخشا۔ شاہ خالد نے 1967 اور 1976 میں دو مرتبہ دورہ کیا، جبکہ مرحوم شاہ فہد 1980 میں تشریف لائے۔

سب سے زیادہ دورے مرحوم شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے کیے، 1984، 1997، 1998، 2003 اور 2006 میں۔ اُن کا وہ تاریخی لمحہ آج بھی پاکستانیوں کے حافظے میں زندہ ہے جب انہوں نے پارلیمنٹ کے ایوان میں کھڑے ہو کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا۔

اسی طرح شاہ سلمان بن عبد العزیز نے 1998 اور 2014 میں پاکستان کا دورہ کیا، اور موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2019 میں اپنے تاریخی دورے کے دوران 21 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری منصوبوں کا اعلان کر کے اس دوستی میں ایک نیا باب رقم کیا۔

سعودی عرب نے وژن 2030 کے اعلان کے ساتھ ترقی کی جس ہمہ جہتی راہ کا آغاز کیا، وہ نجد وحجاز کی ریت سے جدید دنیا کے آسمان تک پھیلی ہے۔ سیاحت، ثقافت، کھیل، اور (ٹیکنالوجی) کے میدانوں میں جو انقلاب برپا ہوا، اس نے سعودی عرب کو جدید دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں لاکھڑا کیا۔ آنے والے برسوں میں ایکسپو، ایشیا کپ، اور ورلڈ کپ جیسے عالمی ایونٹس کی میزبانی اسی وژن کی عملی تعبیر ہے۔

وژن 2030 کا مقصد تیل پر انحصار کم کرکے معیشت کو متنوع بنیادوں پر استوار کرنا ہے، اور سعودی قیادت نے اس سمت میں حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل معیشت کے میدان میں اب سعودی عرب ایک ابھرتا ہوا عالمی رہنما بن چکا ہے۔

دفاعی اور عسکری تعلقات ہمیشہ سے پاک سعودی رشتے کی ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں۔ پاکستانی افسران نے سعودی افواج کی تربیت میں ایک کردار ادا کیا، جبکہ انسدادِ دہشتگردی کے میدان میں دونوں ملکوں نے باہمی اعتماد پر مبنی مضبوط اشتراک قائم رکھا۔ لیکن اب یہ تعلق صرف عسکری دائرے تک محدود نہیں رہا؛ اس کے اثرات معیشت، صنعت، اور تکنیکی شعبوں تک پھیل چکے ہیں۔

اب امکان ہے کہ سعودی عرب اپنی غذائی ضروریات کا کچھ حصہ پاکستان سے پورا کرے۔ 2019 میں طے پانے والے تیل اور توانائی کے معاہدے عملی شکل اختیار کرنے جا رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی دونوں ممالک کی نجی کمپنیاں ایک دوسرے کے ملک میں سرمایہ کاری کے منصوبے بنا رہی ہیں۔ دفاعی صنعت میں اشتراک، تکنیکی منتقلی، اور مشترکہ پیداوار کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔

تعاون کا ایک نیا باب کھیل اور ثقافت کے میدان میں بھی کھل سکتا ہے۔ پاکستان کی فٹبال ٹیم سعودی عرب کی جدید سہولتوں سے استفادہ کر سکتی ہے، اور سعودی عرب کی ابھرتی ہوئی کرکٹ ٹیم پاکستان کے تجربے سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

سیالکوٹ کے کاریگر جو دنیا کے بہترین کھیلوں کے آلات تیار کرتے ہیں اب سعودی کھیلوں کے انفراسٹرکچر میں بھی مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں، یہ دلچسپ حقیقت بھی دونوں ملکوں کے باہمی ربط کی علامت ہے کہ گزشتہ چار فٹبال ورلڈ کپ کے گیند پاکستان نے تیار کیے، اور اب جب سعودی عرب 2034 کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرے گا تو پاکستان کے صنعت کار اور کاریگر ایک نئے باب کے شریک ہوں گے۔

ستمبر 2025 میں دونوں ممالک نے اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، ایک ایسا معاہدہ جس کے تحت کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ اسی کے دہائی کے دفاعی پروٹوکول کی توسیع اور تکمیل ہے، جس میں دفاعی تعاون، معلومات کے تبادلے، اور مشترکہ دفاعی صلاحیت کی بنیاد رکھی گئی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے عسکری روابط سات دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہیں، جو وقت کے ساتھ مزید مستحکم ہوے ہیں۔

دونوں نے نہ صرف ایک دوسرے کا دفاعی طور پر ساتھ دیا بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے باہمی شراکت کو وسعت دی۔ 2025 کا یہ معاہدہ اس دیرینہ رشتے کی تاریخی تکمیل ہے، اور ممکن ہے آنے والے برسوں میں یہی شراکت پورے خطے کے دفاعی نقشے کو نئی جہت دے۔

آخر میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کا تعلق محض دو ریاستوں کا نہیں، بلکہ دو ملتوں کے خوابوں کا تسلسل ہے۔ اگر ماضی ایمان کا تھا، حال اعتماد کا ہے، تو مستقبل ان شاء اللہ ترقی کا ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

رواں سال کے دوران اسلام آباد میں اب تک ڈینگی کے کتنے کیس رپورٹ ہوئے؟

مگرمچھ کا حملہ: 57 سالہ خاتون دریا میں لاپتا، ویڈیو وائرل

حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر غور ہو سکتا ہے، پی پی کے ساتھ اتحاد ممکن نہیں، سلمان اکرم راجا

نوبل انعام کی تقسیم کا سلسلہ جاری، فزکس میں کون سے 3 ماہرین نے اعلیٰ اعزاز حاصل کرلیا؟

پاکستان کے 60 فیصد ڈاکٹرز بیرونِ ملک جا رہے ہیں، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف

ویڈیو

عربی زبان کے فروغ پرمکالمہ، پاکستان بھی شریک

شہریوں کے محافظ پولیس اہلکار جو فرض سے غداری کر بیٹھے

اے پی ایس اٹیک میں بیٹا کھونے والی باہمت بیوہ جو اسلام آباد میں پکوڑے بیچتی ہیں

کالم / تجزیہ

ڈیجیٹل اکانومی پاکستان کا معاشی سیاسی لینڈ اسکیپ بدل دے گی

سابق سعودی سفیر ڈاکٹر علی عسیری کی پاک سعودی تعلقات پر نئی کتاب

امپورٹ میں 11 ارب ڈالر کے تجارتی فرق کا معاملہ