برازیل نے ڈینگی بخار کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک انوکھا اور حیران کن قدم اٹھاتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی مچھر فیکٹری کا افتتاح کر دیا ہے۔ یہ فیکٹری ہفتہ وار 19 کروڑ مچھر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں سال کے دوران اسلام آباد میں اب تک ڈینگی کے کتنے کیس رپورٹ ہوئے؟
یہ فیکٹری برازیل کی ریاست ساؤ پالو کے شہر کمپیناس میں واقع ہے اور اس کا رقبہ تقریباً 1،300 مربع میٹر ہے۔
یہاں ماہرین مسلسل اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کروڑوں مچھر بالغ ہونے کے بعد افزائش نسل کے لیے چھوڑ دیے جائیں جو سننے میں ڈراؤنا لگتا ہے لیکن اس کے پیچھے ایک سائنس پر مبنی حکمتِ عملی کارفرما ہے۔
مچھروں کو ’وولباچیا‘ بیکٹیریا سے متاثر کیا جاتا ہے
اس فیکٹری میں پیدا ہونے والے مچھر دراصل Aedes aegypti نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ وہی مچھر ہیں جو ڈینگی وائرس پھیلاتے ہیں۔
لیکن فیکٹری میں ان مچھروں کو ایک خاص بیکٹیریا (’وولباچیا) سے متاثر کیا جاتا ہے جو ان کے جسم میں ڈینگی وائرس کی افزائش کو روکتا ہے۔
نتیجتاً یہ مچھر جب انسانوں کو کاٹتے ہیں تو وائرس منتقل نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیے: ڈینگی پر قابو پانے کے لیے محکمہ صحت نے کون سا نیا طریقہ اختیار کیا ؟
مزید برآں جب یہ مچھر افزائش نسل کرتے ہیں تو وولباچیا بیکٹیریا ان کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور یوں طویل مدت کے لیے حفاظتی اثر برقرار رہتا ہے۔
مچھر کیسے پیدا کیے جاتے ہیں؟
فیکٹری میں مچھر پیدا کرنے کا عمل اس طرح ہوتا ہے کہ ہزاروں ٹرے میں پانی موجود ہوتا ہے جس کا درجہ حرارت کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ لاروا نشوونما پا سکے۔
بالغ ہونے پر مچھروں کو پنجروں میں منتقل کیا جاتا ہے۔
نر مچھروں کو روئی میں ڈالی گئی میٹھا محلول دیا جاتا ہے۔
جبکہ مادہ مچھروں کو جانوروں کا خون فراہم کیا جاتا ہے جو انسانی جلد کی ساخت جیسی تھیلیوں میں رکھا جاتا ہے۔
4 ہفتے تک یہ مچھر پنجروں میں رہتے ہیں اور اسی دوران وہ انڈے دیتے ہیں۔
برازیل: ڈینگی کا ہاٹ اسپاٹ
برازیل نے اس طریقہ کار کو بڑے پیمانے پر اپنانے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کیونکہ ملک میں ڈینگی کے کیسز ہر سال خطرناک حد تک بڑھتے جا رہے ہیں۔
سنہ 2024 میں برازیل نے تاریخ کی بدترین ڈینگی وبا کا سامنا کیا، جو دنیا بھر کے 80 فیصد سے زائد کیسز پر مشتمل تھی۔
مزید پڑھیں: ہوائی کے جزیروں میں ڈرونز کے ذریعے ہزاروں مچھروں کی بارش کیوں برسائی جارہی ہے؟
یہ فیکٹری 19 کروڑ مچھر فی ہفتہ پیدا کر سکتی ہے جو ایک سال میں 10 کروڑ افراد پر اس طریقے کا اطلاق کرنے کے لیے کافی ہے۔