کیا غزہ میں جنگ بندی دیرپا ثابت ہوگی؟ خدشات،اثرات، مضمرات 

جمعہ 10 اکتوبر 2025
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آخر کار غزہ میں مظلوم فلسطینیوں پر طاری 2 سال کی لہورنگ، بہت تکلیف دہ، خوفناک اور کربناک جنگ اپنے اختتام کو پہنچتی نظر آ رہی ہے۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ یہ سیاہ رات اب ختم ہونے کو ہے، نئی صبح کی کرنیں نمودار ہونے لگی ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر اس سب میں ابھی کئی خطرات، خدشات، تحفظات اور بہت سے اِف، بٹس(ifs and buts) موجود ہیں۔ آج کے کالم میں ان سب کا جائزہ لیتے ہیں۔

معاہدے کا پہلا مرحلہ کیا ہے؟

صدر ٹرمپ کے بیس نکاتی امن معاہدے کے تحت یہ جنگ بندی یا فائر بندی ہو رہی ہے۔ حماس اور اسرائیل دونوں اس پہلے مرحلے پر رضامند ہوئے ہیں۔ یہ مذاکرات مصر میں اِن ڈائریکٹ یعنی بالواسطہ ہوئے ہیں، اس میں ثالث مصر، قطر اور ترکیہ تھے  جبکہ مشرق وسطی کے لیے ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکواف اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

معاہدے کے اہم نکات

اس پہلے مرحلے پر جن چیزوں میں اتفاق رائے ہوا ہے اس کے اہم نکات یہ ہیں۔

(1) فائر بندی

فریقین نے مکمل جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، تاہم اس کے نفاذ کا حتمی وقت جلد اعلان کیا جائے گا۔ اسرائیل اسے جنگ بندی کے بجائے فائر بندی کہہ رہا ہے۔ تاہم اسکے مطابق  اب غزہ پر مزید بمباری یا حملے نہیں ہوں گے۔

 (2) قیدیوں کا تبادلہ

تحریکِ مزاحمت یعنی حماس معاہدہ ہونے کے بہتر گھنٹوں یعنی تین دنوں (پیر کے روز) تک 20 اسرائیلی قیدیوں کو زندہ حالت میں رہا کرے گی، جب کہ اس کے بدلے اسرائیل 2000 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔ ان میں 250 عمر قید کی سزا پانے والے اور 1700 پچھلے دو برسوں کی جنگ کے دوران گرفتار ہونے والے فلسطینی شامل ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ اسرائیل کی قید میں موجود معروف فلسطینی رہنما مروان برغوثی کو رہا کرنے پر اسرائیلی حکومت رضامند نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے

حماس مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ کا  کہنا ہےکہ حماس کو امریکا، عرب ثالثوں اور ترکیے کی جانب سے اس بات کی ضمانتیں ملی ہیں کہ غزہ میں جنگ مستقل طور پر ختم ہوگئی ہے۔خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ معاہدے میں رفح کراسنگ سے آمد اور خروج کا راستہ کھولنا شامل ہے، معاہدے کے تحت اسرائیلی جیل میں بند تمام فلسطینی خواتین اور بچوں کی رہائی شامل ہے۔

(3) لاشوں کی واپسی

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق، فریقین کے درمیان 28 اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی واپسی پر بھی اتفاق ہوا ہے، جو مرحلہ وار عمل میں لائی جائے گی کیونکہ بعض کی شناخت اور مقامات کی تصدیق میں وقت درکار ہے۔

(4) امدادی سامان کی فراہمی: معاہدے کے مطابق 400 ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوں گے جو خوراک، پانی، دوائیں اور تعمیراتی مواد لائیں گے۔ یہ تعداد ابتدائی پانچ دن کے بعد مزید بڑھائی جائے گی۔ اس وقت سب سے اہم یہی بات ہے کیونکہ فائربندی اور غزہ کے مکینوں کے لیے خوراک اور دیگر امدادی سامان پہنچنا اشد ضروری ہے۔

(5) بے گھر شہریوں کی واپسی: جنوبی غزہ سے بے دخل کیے گئے ہزاروں خاندانوں کو اپنے علاقوں میں فوری واپسی کی اجازت دی جائے گی، خاص طور پر شمالی اور وسطی غزہ میں۔

(6) اسرائیلی انخلا

امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نے وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی فوج کا انخلا 24 گھنٹے کے اندر مکمل کر لیا جائے گا اور فوجی اہلکار ’طے شدہ حدِ فاصل‘ تک پیچھے ہٹ جائیں گے۔

یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اسرائیلی فوج کا انخلا غزہ کے مرکزی  علاقوں، رفاہ اور خان یونس وغیرہ سے ہوگا، مگر وہ غزہ کو مکمل طور پر نہیں چھوڑ کر جائیں گے بلکہ ییلو لائن سے پیچھے چلے جائیں گے، یہ نقشے پر ایک لکیر بنائی گئی ہے جس کے مطابق غزہ پر ترپن فیصد علاقے پر بدستور اسرائیلی فوج موجود رہے گی تاہم 47 فیصد علاقہ خالی کر کے پیچھے ہٹ جائے گی۔ معاہدے کے مطابق جیسے جیسے اگلے مراحل شروع ہوں گے اور پیش رفت جاری رہے گی ، اسرائیلی فوج مزید پیچھے ہٹتی جائے گی ، حتیٰ کہ مکمل انخلا ہوجائے۔

فریقین کیسے رضامند ہوئے ؟

بی بی سی اور دیگر عالمی نشریاتی اداروں کے مطابق صدر ٹرمپ نے اسرائیلی حکومت پر سخت دباو ڈال کر یہ معاہدہ کرایا ہے۔ نیتن یاہو اس پر ابتدا میں رضامند نہیں تھے، تاہم وائٹ ہاوس کے شدید دبائو کے بعد وہ کچھ پیچھے ہٹے اور یوں معاہدہ ہوا۔ حماس نے بھی پہلے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، تاہم صدر ٹرمپ کی جانب سے مکمل خاتمے کی شدید دھمکی اور پھر ثالث عرب ممالک کے دبائو کے پیش نظر اور غزہ میں فلسطینیوں کی تباہ حال  حالت دیکھ کر بھی حماس کو لچک پیدا کرنا پڑی۔

مزید پڑھیے: غزہ کے لیے مجوزہ امن معاہدہ: اہم نکات، مضمرات، اثرات

نیتن ہاہو کی حکومت میں شامل انتہائی سخت گیر دائیں بازو کی جماعت اس معاہدے کی مخالف ہے۔ یہ شدت پسند غزہ میں یہودی آبادکاری چاہتے ہیں اور ان کے خیال میں غزہ اور حماس کا مکمل خاتمہ ہوجانا چاہیے ۔ تاہم حالات کے جبر نے معاہدے کے پہلے حصے پر عملدرامد کرانے کی راہ ہموار کی ہے۔

امن معاہدے کو کون سے خطرات لاحق ہیں؟

خطرات کئی قسم کے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ تو اسرائیل اور وزیراعظم نیتن یاہو کی مسلسل عہد شکنی اور ناقابل اعتماد رویہ ہے۔ نیتن یاہو پہلے ہی جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکے ہیں۔ یہ خدشہ موجود ہے کہ جب حماس تمام اسرائیلی یرغمالی رہا کر دے گی تب اسرائیل اپنے وعدوں سے مکر کر پھر سے حملے شروع کر دے۔ حماس نے اس بارے میں عرب ثالثوں اور ترکیہ سے ضمانتیں مانگی ہیں، ظاہرہے یہ ممالک اسرائیل پر اثراندازہونے کی طاقت نہیں رکھتے ، انہوں نے بھی آگے امریکا اور صدر ٹرمپ سے ضمانت لی ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ مگر اسرائیل سے بدعہدی کا خطرہ موجود ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگلے فیز میں حماس کے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ حماس کہہ چکی ہے کہ اگر آزاد فلسطینی ریاست بنے تو وہ اپنے ہتھیار ڈال دے گی کیونکہ پھر حفاظت آزاد فلسطینی ریاست کا کام ہے، مگر ظاہر ہے اس وقت کون سی آزاد فلسطینی ریاست بننے جا رہی ہے۔ یہ مرحلہ یا خواب تو ابھی خاصے آگے کا ہے۔

صدر ٹرمپ کے امن معاہدے کے مطابق اگلے مرحلے میں حماس کو غیر مسلح کر دیا جائے گااور پھر  ایک غیر سیاسی فلسطینی ٹیکنوکریٹک کمیٹی پر مشتمل عبوری حکومت قائم ہوگی۔ یہی سب معاملات سنبھالے گی۔ اس کمیٹی کی نگرانی ایک پیس بورڈ کرے گا، جس کے سربراہ صدر ٹرمپ خود کرنے کے خواہش مند ہیں، تاہم وہ چاہتے ہیں کہ اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو بھی اہم کردار دیا جائے، مگر عرب دنیا میں ٹونی بلیئر کو امریکی ٹاوٹ ہی تصور کیا جاتا ہے تو ان کی مخالفت ہورہی ہے۔ اس پیس بورڈ کی تشکیل پر بھی اعتراضات اور مسائل سامنے آئیں گے۔یاد رہے کہ غزہ کی تعمیر نو وغیرہ کے سب معاملات یہی پیس بورڈ ہی دیکھے گا۔

  بہرحال اس پیس بورڈ کی نگرانی میں موجود غیر سیاسی فلسطینی ٹیکنو کریٹس پر مشتمل کمیٹی جو کچھ عرصہ عبوری حکومت چلائے گی، مگر آخر کار یہ پھر معاملات فلسطینی اتھارٹی کو  سونپے گی جو نظم ونسق سنبھال لے گی۔ اس دوران  فوری طور پر ایک انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف )قائم کی جائے گی جو جانچ شدہ فلسطینی پولیس کو تربیت دے گی۔ یہ فورس مصر اور جورڈن کی مشاورت سے کام کرے گی۔ یہ اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدوں کی حفاظت بھی کرے گی اور غزہ میں جنگی سامان بھی داخل نہیں ہونے دے گی۔

جیسے جیسے آئی ایس ایف کی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس ایکٹو ہو کر معاملات اپنے کنٹرول میں کرے گی، اس کے ساتھ ساتھ ہی معاہدے کے مطابق اسرائیلی فوج بتدریج پیچھے ہٹتی جائے گی، حتیٰ کہ مکمل انخلا ہوجائے۔

اب اس مقامی فلسطینی اتھارٹی کی نتن یاہو مخالفت کر رہے ہیں، انہیں شاید لگتا ہے کہ اس سے فلسطینی الگ ریاست ہونے کا تاثر ملے گا۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ اس  فلسطینی اتھارٹی سے حماس نواز غیر عسکری لوگوں کو کس طرح باہر رکھا جائے کیونکہ حماس بہرحال غزہ میں بہت مقبول ہے اور عام میں گہرا اثرورسوخ رکھتی ہے۔

  یہ سب مختلف نوعیت کے مسائل اور تحفظات ہیں۔ بہت کچھ ابھی طے ہونا باقی ہے۔ اسرائیل کا رویہ، حماس کی قیادت کا ردعمل وغیرہ بہت اہم ہے۔ تاہم امید کا در کھل گیا ہے۔ فائر بندی ہونے سے، قیدیوں کے تبادلے ، اسرائیلی فوج کے پیچھے ہٹنے، بے گھر فلسطینیوں کی اپنے گھروں میں واپسی ، امدادی سامان کی آمد کا سلسلہ قائم ہونے سے بہت کچھ بہتر ہوگا۔ غزہ میں اس معاہدے پر جشن منایا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر اسرائیل میں بھی خوشی منائی گئی، لوگ سڑکوں پر آئے۔ کچھ تو ان اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ ہیں، مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں خوشی ہے کہ چلو جنگ ختم تو ہوئی کیونکہ اسرائیلی فوج میں خاصا حصہ ریزرو آرمی کا ہے جو جنگ ختم ہونے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔

مزید پڑھیں: کیا آج کا وائٹ ہاؤس درست فیصلہ کر پائے گا؟

امید کرنی چاہیے کہ معاملات ٹھیک سمت میں چلیں گے اور مظلوم فلسطینیوں کے لیے زندگی آسان ہوگی۔ ویسے یہ ضرور ہے کہ اسرائیل اور ان کا سفاک وزیراعظم اتنے بڑے ظلم اور 60،70 ہزار جانوں کا لہو اپنے ہاتھوں پر لے کر بھی بچ نکلے گا۔ یہ انصاف تو نہیں، مگر قدرت تو بہرحال اپنا انصاف کرے گی۔ قدرت کے بے رحم انصاف اور مکافات عمل سے تو کوئی نہیں بچ سکا۔ نیتن یاہو کب تک بچے گا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی، سعودی عرب کا ردعمل بھی آگیا

افغانستان کی جارحیت: پاکستان کا جوابی کارروائی میں فضائی  وسائل اور ڈرونز کا استعمال

افغانستان کی پاکستان میں بلااشتعال فائرنگ، پاک فوج کی جوابی کارروائی میں درجنوں افغان فوجی اور خارجی ہلاک

عازمینِ حج 27 اکتوبر تک کوائف کی درستگی کروا لیں، وزارت مذہبی امور کی ہدایت

پاکستان کا بھارت اور افغانستان کے مشترکہ اعلامیے پر تحفظات کا اظہار، افغان سفیر کی دفتر خارجہ طلبی

ویڈیو

ٹرمپ منصوبہ کامیاب، پاکستان کو کیا اہم ٹاسک ملنے والا ہے؟

لاہور کی وہ سڑک جس پر گاڑی نہیں صرف لوگ چل سکتے ہیں

مریم نواز نے اپنی کارکردگی پر اٹھتے سوالوں کا جواب دے کر فرض ادا کیا، سینیٹر پرویز رشید

کالم / تجزیہ

جین زی: گزشتہ سے پیوستہ

پاک سعودی عرب معاہدہ: طاقت کے توازن کی نئی تعبیر

پیاس کی کہانی