جرمنی میں جرائم میں ملوث افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ معاہدہ حتمی مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق جرمن وزیرِ داخلہ الیگزینڈر ڈوبرنڈٹ نے ہفتے کو ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کابل کے ساتھ مذاکرات انتہائی پیش رفت کے مرحلے” میں ہیں اور جلد باضابطہ معاہدہ طے پانے کی امید ہے۔
A German man was fined 3600€ after being attacked and stabbed with a knife by Afghan MusIim for criticising lslam.
The lslamist also stabbed and killed a 29 year old German police officer in the attack few months ago in the same crime scene. pic.twitter.com/Z9TmSKDoqV
— Azat (@AzatAlsalim) November 29, 2024
ڈوبرنڈٹ نے بتایا کہ حکومت باقاعدہ ملک بدری پروازوں کا آغاز کرنا چاہتی ہے، جو صرف چارٹر فلائٹس تک محدود نہیں ہوں گی بلکہ تجارتی پروازوں کے ذریعے بھی ممکن ہوں گی۔
وزیراعظم فریڈرِخ میرٹز، جو مئی میں اقتدار میں آئے، نے اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ جرائم میں ملوث افغان پناہ گزینوں کو تیزی سے ملک بدر کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:افغان طالبان کا پاکستان پر حملہ، جوابی کاروائی میں پاک فوج کا 19 افغان چوکیوں پر قبضہ
تاہم یہ پالیسی اس وجہ سے متنازع ہے کہ برلن نے کابل میں طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا۔
جرمنی نے 2021 کے بعد سے دو ملک بدری پروازیں کی ہیں، جولائی 2025 میں 81 افغان شہریوں کو واپس بھیجا گیا جبکہ گزشتہ سال 28 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔ ان پروازوں کے انتظامات میں قطر نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق، گزشتہ ہفتے طالبان حکام کے ساتھ کابل میں ’تکنیکی مذاکرات‘ بھی ہوئے تاکہ آئندہ پروازوں کے لیے عملی انتظامات طے کیے جا سکیں۔
Two Afghan men in Germany, Amanola(22) and Mustafa(21) drugged and raped two German girls, ages 13 and 15. The 13-year-old fell into a coma and was repeatedly raped for a day, nearly to death. The 15-year-old was strangled until she was defenseless before being raped as well. pic.twitter.com/1xr5clFzKz
— Azat (@AzatAlsalim) June 15, 2025
ڈوبرنڈٹ نے کہا کہ وہ اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے، حتیٰ کہ خود کابل جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اسی نوعیت کا معاہدہ شام کے ساتھ بھی کرنے کی کوشش کریں گے۔
یاد رہے کہ کئی یورپی ممالک نے صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شامی شہریوں کی پناہ کی درخواستیں منجمد کر دی تھیں۔