غزہ میں جنگ بندی معاہدہ ہو چکا ہے، گوکہ مبہم ہے لیکن کیا مسلم امہ یا ہمارے پاس کوئی اور بہتر حل پیش کرنے کی استطاعت اور ہمت ہے؟ جہاں فلسطین سمیت دنیا بھر میں جنگ بندی پر جشن منایا جارہا تھا، ہمارے انتہا پسند حلقے اس معاہدے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
عجب مزاجِ زمانہ ہے!
جس طرح دوسری جنگ عظیم میں ایڈولف ہٹلر کی جانب سے یہودیوں کی نسل کشی پر پوری دنیا پچھلے 75 برس سے ماتم کناں ہے، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اسرائیل کی ننگی جارحیت کے سامنے دنیا آنکھیں بند کرلے اور ضمیر گہری نیند سوتا رہے؟ گو کہ آنکھ کھلنے میں کافی تاخیر ہوئی۔
گزشتہ 2 برسوں میں اسرائیلی جارحیت نے جو قیامت برپا کی، اس کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 77 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے، جن میں قریباً 17 ہزار معصوم بچے شامل ہیں۔ اتنی بڑی انسانی تباہی کے بعد آخرکار دنیا کا اجتماعی ضمیر جاگنے لگا۔ نسل، مذہب یا قومیت سے بالاتر ہو کر لاکھوں انسان دنیا بھر کی سڑکوں پر فلسطین کے حق میں نکل آئے۔ لندن، پیرس، بارسلونا، برلن، میڈرڈ، نیویارک، سڈنی، استنبول اور کیپ ٹاؤن کی شاہراہیں ایک ہی نعرے سے گونج اٹھیں۔
’فلسطین کو آزاد کرو‘
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف نفرت اور غم و غصے کی لہر نے عالمی سطح پر ایسی شدت اختیار کی کہ اقوامِ متحدہ میں نیتن یاہو کی حالیہ تقریر کا 145 ممالک نے اجتماعی طور پر بائیکاٹ کیا۔ یہ ایک ایسی علامتی مگر تاریخی کارروائی تھی جس نے عالمی سیاست کے رخ کو بدلنے کا عندیہ دیا۔ دوسری جانب ہالی ووڈ، برطانیہ، فرانس، اسپین اور دیگر یورپی ممالک کے 4 ہزار سے زیادہ فنکاروں، فلم سازوں، مصوروں اور لکھاریوں نے اسرائیلی پروپیگنڈا مشینری اور فنڈنگ نیٹ ورکس کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ یہ صرف ایک احتجاج نہیں بلکہ ایک عالمی ضمیر کی بیداری کی علامت بنا جو طاقت کے مراکز کو للکارنے کی ہمت کررہا تھا۔
لندن کے پارلیمنٹ اسکوائر میں حالیہ مظاہروں کے دوران غزہ میں اسرائیلی بربریت اور درندگی کی تصویری جھلکیاں، بچوں کی چیختی آوازیں اور تباہ شدہ اسپتالوں کے مناظر دکھائے گئے، مگر ان کے ساتھ ساتھ برطانیہ، امریکا اور یورپ کی حکومتوں کے اس خون میں شریک ہونے کا پردہ بھی کھلے عام چاک کیا گیا۔
لوگوں نے نہ صرف اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاج کیا بلکہ ان عالمی طاقتوں کے خلاف بھی جنہوں نے اس قتلِ عام کو ’حقِ دفاع‘ کا لبادہ پہنا کر جائز قرار دینے کی کوشش کی۔
برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے 1917 میں ’بالفور ڈیکلریشن‘ کے ذریعے فلسطین میں آباد باشندوں کی زندگی عمر بھر کے لیے ایک دائمی المیے میں بدل دی تھی۔
آرتھر بالفور نے یہ خط برطانوی یہودی کمیونٹی کے رہنما لارڈ روتھ شائلڈ کو لکھا۔
اعلان میں کہا گیا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی عوام کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کی حمایت کرتا ہے، لیکن اس بات کی شرط کے ساتھ کہ وہاں موجود عرب فلسطینیوں کے شہری اور مذہبی حقوق متاثر نہ ہوں۔
یہ اعلان بعد میں اسرائیل کے قیام کی بنیادوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
فلسطین پر بیرونی آبادی کے لیے وطن بنانے کا وعدہ یہاں کی عوام کے ساتھ کھلی زیادتی ہی نہیں تھی، بلکہ یہ برطانیہ کا مستقل بنیادوں پر اس خطے کو آگ میں جھونکنے کا منصوبہ تھا۔
اس وقت فلسطین میں مسلمان، یہودی اور عیسائی عرب برادریاں صدیوں سے امن و ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہی تھیں، مگر برطانیہ کے اس فیصلے نے اس توازن کو توڑ دیا، جس کے بعد یورپ سے بڑی تعداد میں یہودی مہاجرین کی آمد شروع ہوئی۔
برطانوی اور فرانسیسی سرپرستی میں آبادیاتی تبدیلی کے ایسے تمام منصوبے مشرقِ وسطیٰ کو تقسیم کرنے اور اس پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کی حکمتِ عملی کا حصہ تھے، جس نے فلسطین اور اسرائیل تنازع کو جنم دیا۔
اسکاٹش مؤرخ اور مصنف ولیم ڈارِمپل غزہ میں جاری نسل کشی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’برطانیہ کی عوام کو آج تک فلسطین کے تنازع کی نہ اصل وجوہ بتائی گئی ہیں نہ نصاب میں بالفور ڈیکلریشن کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کیں کہ یہ سب برطانیہ کے کرتا دھرتاؤں کا خوف ناک منصوبہ ڈاؤننگ اسٹریٹ کے بائیں جانب بنی بلڈنگ ’اولڈ کلونیل آفس‘ میں طے پایا تھا جس کی پاداش میں فلسطینی آج اس نسل کشی کا شکار ہیں۔
حماس نے پھل جھڑی چھوڑ کر فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کا اسرائیل کو بھرپور جواز اور موقع فراہم کیا۔
پاکستان میں بھی کچھ حلقے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ احتجاج صرف غزہ کی جنگ کے خلاف ہی کیوں ہو رہے ہیں؟ جب کہ دنیا کے کچھ اور خطوں میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔
اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ سوڈان میں پچھلے 5 برسوں سے جاری خانہ جنگی ملک کی فوج اور نیم فوجی ملیشیا کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے، جس میں اگرچہ عام شہری بھی مارے جا رہے ہیں، مگر یہ ایک داخلی تصادم ہے۔
بلاشبہ ظلم و بربریت کہیں بھی ہو، وہ ناقابلِ جواز ہے، مگر ان خانہ جنگیوں کا غزہ میں ہونے والی نسل کشی سے موازنہ کرنا سراسر غلط ہے۔
غزہ میں اسرائیل کا ہدف حماس نہیں بلکہ پورا فلسطینی وجود تھا، بچے، عورتیں، بوڑھے، صحافی، ڈاکٹر، اسپتال، اسکول اور رہائشی عمارتیں سبھی اسرائیلی بمباری کی زد میں آئے اور صرف 2 سال میں اسرائیل نے قریباً %80 غزہ کی پٹی کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
غزہ اس لیے بھی تاریخِ انسانی کی بدترین نسل کشی کی مثال ہے کہ وہاں کے لوگوں کے لیے کوئی فرار کی راہ موجود نہیں تھی۔
یوکرین کی جنگ میں لاکھوں لوگ پولینڈ، جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں پناہ گزین بنے۔
سوڈان میں بھی لاکھوں افراد خانہ جنگی اور بھوک سے تنگ آ کر دوسرے علاقوں میں ہجرت کر چکے ہیں، لیکن غزہ کے باشندوں کے پاس نہ کھلی سرحدیں تھیں، نہ محفوظ پناہ گاہیں، حد نگاہ تک صرف مٹی، ملبہ اور لاشوں کے درمیان بچی کچھی زندگی سانس لے رہی تھی۔
دنیا شاید پہلی بار اس شدت سے سمجھنے لگی کہ ظلم چاہے کسی کے ساتھ ہو، اگر اس پر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ خاموشی خود ظلم بن جاتی ہے، اور شاید یہی وہ لمحہ تھا جب تاریخ اپنا نیا باب لکھنے جا رہی ہے جس میں فلسطین کے نام کے ساتھ شاید اب صرف خون نہیں، بلکہ انسانیت اور امید کے چراغ بھی روشن ہوں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔