غزہ میں دو سالہ جنگ اور تباہ کن بمباری کے بعد بحالی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے عمل کو اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ نے بڑا اور مشکل کام قرار دیا ہے۔
ہفتے کے روز اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے کوآرڈی نیٹر ٹام فلیچر نے غزہ شہر کے شمالی علاقے شیخ رضوان میں واقع گندے پانی کے پلانٹ کا معائنہ کیا، جہاں تباہ شدہ گھروں اور ملبے کے ڈھیر کے درمیان ان کا قافلہ سفید اقوام متحدہ کی گاڑیوں میں پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا اسرائیل سے غزہ پر قبضے کا منصوبہ فوری طور پر روکنے کا مطالبہ
فلیچر نے تباہی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ’میں سات 8 ماہ پہلے یہاں آیا تھا، تب زیادہ ترعمارتیں قائم تھیں اب یہ پورا علاقہ ایک کھنڈر بن چکا ہے۔ یہ منظر دیکھنا انتہائی افسوسناک ہے۔‘
غزہ کی گنجان آبادی، جہاں دو ملین سے زائد فلسطینی بستے ہیں، دو سال کی لڑائی کے دوران تقریباً ملبے میں بدل چکی ہے۔
Poverty and human rights violations feed each other.
Let's break this cycle and deliver on our promise of leaving no one behind. #EndPoverty pic.twitter.com/Wj7DMlib0Y
— Volker Türk (@volker_turk) October 17, 2025
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی کے دوسرے ہفتے میں داخل ہونے کے باوجود مصر سے مرکزی سرحدی راستہ اب تک نہیں کھل سکا، تاہم اسرائیلی چوکیوں کے ذریعے روزانہ سینکڑوں ٹرک امداد لے کر غزہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی غزہ میں قحط کی باضابطہ تصدیق، آدھی سے زیادہ آبادی شدید متاثر
ادھر حماس نے اپنے زیر حراست آخری 20 زندہ مغویوں کو رہا کر دیا ہے، جبکہ مزید 28 ہلاک شدگان کی باقیات کی حوالگی کا عمل شروع کر دیا ہے، جمعے کی شب اسرائیل کو ایک مغوی کی لاش ملی جس کی شناخت الیاہو مرگالیت کے نام سے ہوئی، جو اکتوبر 2023 کے اس حملے میں مارے گئے تھے جس نے غزہ جنگ کو بھڑکایا۔
’یہ ایک بہت بڑا کام ہے‘
شیخ رضوان کے پلانٹ میں تباہ شدہ مشینری اور جمع گندے پانی کا معائنہ کرتے ہوئے ٹام فلیچر نے کہا کہ اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے لیے یہ ’ایک بہت بڑا، بہت ہی مشکل کام‘ ہے۔
Our 60-day Gaza plan is delivering.
Since the ceasefire, we have been able to bring in much more flour, yeast, and fuel for machines. New UN supported bakeries are being opened every day.Visited the latest, where 300,000 pieces of bread are already being produced daily. @WFP pic.twitter.com/0YxkOAAt8X
— Tom Fletcher (@UNReliefChief) October 17, 2025
انہوں نے بتایا کہ وہ ایسے شہریوں سے ملے جو اپنے تباہ شدہ گھروں کے ملبے میں بیت الخلاء کھود رہے ہیں۔
’وہ سب سے زیادہ عزتِ نفس چاہتے ہیں،‘ فلیچر نے کہا۔ ’ہمیں بجلی بحال کرنی ہے تاکہ صفائی کا نظام دوبارہ چلایا جا سکے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ نے 60 دن کا ہنگامی منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت روزانہ 10 لاکھ کھانے فراہم کیے جائیں گے، صحت کے مراکز بحال ہوں گے، سردیوں کے لیے خیمے لگائے جائیں گے اور لاکھوں بچوں کو دوبارہ اسکول واپس بھیجا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جمعرات کے روز 950 ٹرک اسرائیل کے راستے امدادی اور تجارتی سامان لے کر غزہ میں داخل ہوئے۔
امدادی تنظیموں نے مصر کے رفح بارڈر کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ خوراک، ایندھن اور ادویات کی ترسیل تیز ہو سکے، جبکہ ترکی نے امدادی اور ریسکیو ٹیمیں سرحد پر الرٹ کر دی ہیں تاکہ ملبے سے لاشوں کی تلاش میں مدد کی جا سکے۔
Entering Gaza earlier today.
Amid practical work to save lives, we also bear witness. pic.twitter.com/tKeMce9wak
— Tom Fletcher (@UNReliefChief) October 17, 2025
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اگرچہ جنگ بندی پر رضامند ہو چکے ہیں، مگر ان پر اندرونِ ملک دباؤ بڑھ رہا ہے کہ جب تک تمام مغویوں کی لاشیں واپس نہیں ملتیں، غزہ میں رسائی محدود رکھی جائے۔
نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق ہلاک ہونے والے مغویوں کی باقیات جمعے کی شب ریڈ کراس کے ذریعے اسرائیل منتقل کی گئیں، ہلاک ہونے والے مغوی 75 سالہ کسان تھے جنہیں ان کے دوست ’چرچل‘ کے نام سے جانتے تھے۔ وہ اپنے گھوڑوں کو چارہ دینے نکلے تھے جب حماس کے حملے میں اغوا کر لیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں بھوک کا راج اور نیتن یاہو کی ڈھٹائی، اقوام متحدہ کی رپورٹ مسترد کر دی
نیتن یاہو کے دفتر کے بیان میں کہا گیا کہ ’ہم اپنے لوگوں کی لاشیں اور مغویوں کو واپس لانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘
ادھر حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ گروپ جنگ بندی معاہدے پر کاربند ہے اور قیدیوں کے مکمل تبادلے کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے کام جاری رکھے گا۔
ٹرمپ اور علاقائی ثالثوں کی نگرانی میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت حماس نے تمام 20 زندہ مغویوں اور 28 میں سے 10 ہلاک شدگان کی باقیات واپس کر دی ہیں۔
غزہ میں تباہی، انسانی بحران، اور جنگ بندی کے نازک عمل کے درمیان اقوام متحدہ کے لیے یہ ایک نیا امتحان بن چکا ہے — جسے فلیچر نے درست کہا: ’یہ صرف تعمیر نو نہیں، بلکہ ایک پوری زندگی کو دوبارہ کھڑا کرنے کا عمل ہے۔‘













