دنیا آج جتنی روشن ہے، شاید کبھی نہ تھی۔
شہروں میں روشنی کا شور ہے، مگر دلوں میں اندھیرا پھیل رہا ہے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نئی تہذیب جنم لے رہی ہے، جس میں سب کچھ ہے، مگر سکون نہیں۔
یہی وہ لمحہ ہے جب ذہن ایک پرانے سائنسی تجربے کی طرف بھٹک جاتا ہے، جسے دنیا ’یونیورس 25‘ کے نام سے جانتی ہے۔
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں امریکی ماہرِ حیوانیات جان بی کیلہون (John B. Calhoun) نے ایک تجربہ کیا۔
اس نے ایک ایسی دنیا بنائی جہاں چوہوں کو تمام تر سہولیات سے آراستہ ماحول دیا گیا۔ کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں تھی، خطرہ کوئی نہیں، اور رہائش کی سہولت بہترین۔
ابتدا میں آبادی بڑھی، سماجی ڈھانچہ قائم ہوا، بچے پیدا ہوئے، نظام چلنے لگا۔
مگر جیسے جیسے تعداد بڑھی، سماجی رویے بدلنے لگے۔
چوہوں نے ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کرنا شروع کیا۔
کچھ گروہ طاقت کے نشے میں آ گئے، کچھ بے مقصد لڑائیاں کرنے لگے، اور کچھ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
ایک وقت آیا کہ چوہے اپنی جنت میں ہی نفسیاتی موت مر گئے۔
کھانا موجود تھا، مگر کسی کو بھوک نہ تھی؛
ساتھی موجود تھے، مگر کسی کو تعلق کی خواہش نہ رہی۔
یہ تھی ’یونیورس 25‘ کی کہانی جس میں جنت خود جہنم بن گئی۔
اب ذرا اپنی زمین پر نظر ڈالیں۔
ہم نے ہر چیز دریافت کر لی ہے، زمین کے نیچے سے معدنیات نکال لائے، فضا کو مسخر کرلیا، خلا میں بستیاں بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
لیکن انسان کے اندر جو خلا ہے، وہ بڑھتا جا رہا ہے۔
ہمارا دور، بظاہر ترقی یافتہ، دراصل وجودی تنہائی کا دور ہے۔
ہمارے پاس لاکھوں دوست ہیں مگر ایک بھی نہیں جس سے دل کی بات کی جا سکے۔
ہم گفتگو کرتے ہیں، مگر ایک دوسرے کو سنتے نہیں۔
ہم ہنستے ہیں، مگر کسی کے دکھ میں شریک نہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی دنیا اور’یونیورس 25‘ کا تجربہ ایک دوسرے سے ملنے لگتے ہیں۔
دنیا کی آبادی اب 8 ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔
یہ کثرت ایک کامیابی لگتی ہے، مگر اس کے ساتھ ایک خطرہ چھپا ہے۔
بڑھتی تعداد کے ساتھ ذہنی فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
جہاں انسان ایک دوسرے کے قریب ہونے چاہیے تھے، وہاں شہروں کی بھیڑ میں تنہائی بڑھ رہی ہے۔
جیسے ’یونیورس 25‘ میں چوہے ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوئے بھی الگ ہو گئے تھے،
ہم بھی ایک دوسرے کے جسموں کے پاس ہیں مگر روحوں سے دور۔
گھر چھوٹے ہو گئے ہیں، عمارتیں اونچی ہو گئیں،
دل تنگ ہوگئے ہیں، مگر خواہشیں پھیلتی جا رہی ہیں۔
ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں مشینیں جذبات سمجھنے لگی ہیں، مگر انسان جذبات کھونے لگے ہیں۔
مصنوعی ذہانت نے زندگی کو آسان بنایا، مگر رشتوں کو مصنوعی کر دیا۔
الفاظ اب الگورتھم سے پیدا ہوتے ہیں، جذبات فلٹر سے گزر کر آتے ہیں۔
مسکراہٹیں ایموجی بن چکی ہیں،
محبت ڈیجیٹل نوٹیفکیشن میں بدل گئی ہے۔
ہم اب ’محسوس‘ نہیں کرتے، صرف ’ری ایکٹ‘ کرتے ہیں۔
’یونیورس 25‘ میں جب چوہے ضرورتوں سے آزاد ہو گئے، تو اُن کے رویے بگڑنے لگے۔
ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔
جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے، تو مقصد بھی دھندلا جاتا ہے۔
اور جب مقصد گم ہو جائے، تو تہذیب اپنے بوجھ سے خود ہی ٹوٹنے لگتی ہے۔
ہم نے کامیابی کو سہولت کے پیمانے پر پرکھنا شروع کر دیا ہے۔
اب خوشی کا مطلب ہے: رفتار، دولت، شہرت۔
لیکن انسان کی اصل ضرورت ہے معنی، وہ سوال جس کا جواب ہم نے بھلا دیا ہے۔
ہم نے آگے بڑھنے کی جلدی میں یہ بھول گئے کہ کہاں جانا ہے۔
ہم نے اپنے بچوں کو علم دیا، مگر شعور نہیں؛
ٹیکنالوجی دی، مگر مقصد نہیں؛
آرام دیا، مگر احساس چھین لیا۔
اور یہی تو ’یونیورس 25‘ کا المیہ تھا۔
جب مقصد مر جائے، تو زندگی خود سزا بن جاتی ہے۔
بڑھتی آبادی کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ زمین چھوٹی پڑ جائے گی،
بلکہ یہ ہے کہ رشتے چھوٹے پڑ جائیں گے۔
جہاں ہزاروں انسان ساتھ ہوں، وہاں بھی تنہائی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔
ہجوم اب تحفظ نہیں دیتا، بلکہ خوف پیدا کرتا ہے۔
ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، مگر پہچانتے نہیں۔
ہم ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، مگر سمجھتے نہیں۔
اور جب معاشرہ اس سطح تک پہنچ جائے تو وہ زندہ تو رہتا ہے،
مگر زندگی اُس میں مر چکی ہوتی ہے۔
جان کیلہون کے مطابق، چوہوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی تعلقات کا خاتمہ تھی۔
جب ہر فرد نے اپنی چھوٹی سی دنیا بنالی، تو بڑی دنیا بکھر گئی۔
آج ہم بھی اپنی چھوٹی ’ڈیجیٹل دنیا‘ میں قید ہیں۔
ہر شخص ایک الگ اسکرین کے پیچھے بیٹھا ہے۔
جہاں وہ خود کو سب سے زیادہ منسلک سمجھتا ہے،
لیکن درحقیقت سب سے زیادہ تنہا ہے۔
ہم نے ’رابطے‘ بڑھا دیے ہیں، مگر ’رشتے‘ کم کر دیے ہیں۔
ہم ’کنیکٹڈ‘ ہیں مگر ’کمیونٹی‘ نہیں۔
ہم ایک ایسی دنیا کے باسی ہیں جہاں خبریں لمحوں میں پھیلتی ہیں،
مگر درد برسوں میں کوئی نہیں سُنتا۔
’یونیورس 25‘ کا انجام خاموش تھا۔ کوئی شور نہیں، کوئی جنگ نہیں، صرف خاموشی۔
اور یہی خاموشی آج ہماری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔
ہم شور میں رہ کر بھی خاموش ہو چکے ہیں۔
ہماری گفتگوؤں میں معنی نہیں، ہماری آوازوں میں روح نہیں۔
ہمارے خواب مصنوعی ہیں، ہماری مسکراہٹیں پروگرامڈ۔
ہم جیتے ہیں، مگر جیسے کسی اور کے لکھے ہوئے منظرنامے میں۔
لیکن ہر زوال کے بعد ایک سوال بچ جاتا ہے۔
کیا سب ختم ہو چکا ہے؟
نہیں۔
انسان کی فطرت میں ایک ضد ہے، دوبارہ جنم لینے کی ضد۔
ہم نے ہر دور میں خود کو ازسرِنو دریافت کیا ہے۔
’یونیورس 25‘ کا انجام ہمیں ڈراتا ضرور ہے، مگر خبردار بھی کرتا ہے۔
یہ بتاتا ہے کہ اگر ہم نے تعلقات، احساس، اور مقصد کو زندہ رکھا تو
ہم اس تجربے کا نتیجہ نہیں، اس کا استثنا بن سکتے ہیں۔
شاید ہمیں واپس لوٹنا ہوگا۔
اپنے اندر کے شور کو سننے کے لیے،
اپنے ہاتھوں سے مٹی کو چھونے کے لیے،
کسی اجنبی کو مسکراہٹ دینے کے لیے۔
کیونکہ زندگی وہ نہیں جو ہمیں دی گئی،
بلکہ وہ ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔
’یونیورس 25‘ کا تجربہ ختم ہو گیا، مگر اس کی گونج اب بھی باقی ہے۔
شاید ہماری زمین بھی ایک عظیم تجربہ گاہ ہے۔
جہاں کائنات دیکھ رہی ہے کہ
کیا انسان اپنی آسائشوں کے بوجھ تلے دب جائے گا؟
یا اپنی روح کی روشنی سے اس اندھیرے کو چیر دے گا۔
فیصلہ اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔
یا تو ہم ’یونیورس 25‘ کی طرح آسائش میں مر جائیں۔
یا ’انسان‘ بن کر زندہ رہنے کا ہنر سیکھ لیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔