پاکستان کرکٹ پر محمد برادران کے راج کی طویل تاریخ ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے 101 ٹیسٹ میچوں میں سے 100 میں حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد میں سے کوئی ایک بھائی ضرور شامل رہا، اور نمائندگی کی یہ صورت 89 میچوں میں مسلسل رہی۔
زمانی اعتبار سے یہ عرصہ سنہ 1952 سے 1978 تک پھیلا ہوا ہے۔ ان ٹیسٹ کرکٹر بھائیوں کے کارناموں کا مختلف حوالوں سے تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ آج ہم نے 24 اکتوبر کے حوالے سے ان کے کارنامے اجاگر کرنے ہیں جو ان کے لیے ہی نہیں کرکٹ کے لیے بھی خاص ہیں۔
24 اکتوبر 1969 کو کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں یہ تین بھائی میدان میں اترے۔ صادق محمد کا پہلا ٹیسٹ حنیف محمد کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا۔ اس میچ میں شریک تیسرے بھائی مشتاق محمد بھی تھے۔
اس سے پہلے تین بھائیوں کے ایک ہی ٹیسٹ میچ میں کھیلنے کی دو مثالیں موجود تھیں: 1880 میں ڈبلیو جی گریس، ای ایم گریس اور جی ایف گریس نے اوول میں انگلینڈ کی طرف سے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیلا تھا، اس سلسلے کی دوسری مثال دلچسپ ہے۔
سنہ 1892 میں جارج ہیرن اور ایلک ہیرن نے کیپ ٹاؤن میں انگلینڈ کی نمائندگی کی تھی اور فرینک ہیرن جنوبی افریقہ کی طرف سے میدان میں اترے تھے۔ اس سے پہلے وہ انگلینڈ کی جانب سے دو ٹیسٹ میچوں میں شرکت کر چکے تھے۔ تاریخ کو ناولوں کے اسلوب میں بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ غنیم کی صفوں میں شامل ہو گئے تھے۔
پاکستان کے تین کرکٹر بھائیوں نے ایک ساتھ ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنا کر تاریخ رقم کی سو کی، مزید برآں حنیف محمد اور صادق محمد نے اننگز کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے ٹیسٹ میں بھائیوں کے اوپننگ کرنے کا اعزاز ڈبلیو جی گریس اور ای ایم گریس کے پاس تھا۔
حنیف محمد اس ٹیسٹ سے پہلے 54 ٹیسٹ کھیل چکے تھے۔ مشتاق محمد کے پاس 20 ٹیسٹ میچوں کا تجربہ تھا۔
اس لیے ان پر ٹیسٹ میچ کا دباؤ نہیں تھا لیکن صادق محمد ٹینشن میں تھے، ایک تو پہلا ٹیسٹ دوسرے حنیف محمد ایسے عظیم بلے باز کے ساتھ اننگز کا آغاز کرنا۔ میچ کی رات نیند ان سے روٹھی رہی۔ اگلے دن انہوں نے 69 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی جبکہ حنیف محمد 22 رنز بنا پائے۔ اس جوڑی نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 55 رنز بنائے۔ دوسری اننگز میں 75 رنز جوڑے۔ حنیف محمد 35 اور صادق محمد 37 رنز پر آؤٹ ہوئے۔ صادق بدقسمتی سے رن آؤٹ ہو گئے جس میں کسی اور کا نہیں برادر عزیز مشتاق محمد کا ہاتھ تھا جنہوں نے کور پر شاٹ کھیلی اور ’سلی‘ سنگل لینے کے چکر میں چھوٹے بھائی کو رن آؤٹ کروا کر اس کی پیش قدمی روک دی۔ اپنی کتاب ’انسائیڈ آؤٹ‘ میں انہوں نے بھائی کے آؤٹ ہونے کو اپنی غلطی قرار دیا ہے۔ اس کے بعد وہ آپ بھی 19 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے جس سے تاسف بڑھ گیا۔
13 اکتوبر 2025 کو چار ٹیسٹ کرکٹر بھائیوں میں سے سب سے بڑے وزیر محمد کا انتقال ہوا ہے۔ ان کے تین بھائی جب ایک ٹیسٹ میں کھیل رہے تھے وہ قومی کرکٹ ٹیم کے سلیکٹر تھے۔ صادق محمد کے کیریئر پر ان کے بڑے اثرات تھے۔ وہ فطری طور پر دائیں ہاتھ کے بلے باز تھے لیکن وزیر محمد کی ہدایت پر وہ ’رائٹسٹ‘ سے لیفٹیسٹ ہو گئے جس سے ان کی کارکردگی میں بہتری پیدا ہوئی۔ وزیر محمد نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس زمانے میں ’کھبے‘ ہاتھ سے کھیلنے والے کم تھے، اس لیے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بولروں کو ایسے بلے بازوں کو بولنگ کرانے کا زیادہ تجربہ بھی نہیں تھا، تو اس کا فائدہ بھی صادق محمد کو ہوا۔
اب آجاتے ہیں 24 اکتوبر 1976 پر جب صادق محمد اور مشتاق محمد نے نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ میچ میں ایک ہی اننگز میں سینچریاں بنائی تھیں۔ ان سے پہلے یہ کارنامہ ای این چیپل اور گریگ چیپل نے انجام دیا تھا۔
مشتاق محمد اس ٹیسٹ میں کپتان بھی تھے اور سنہ 1965 کے بعد پاکستان ہوم سیریز جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔
اتفاق کی بات ہے اس سے پہلے آخری بار قومی ٹیم نے 11 برس پہلے حنیف محمد کی زیرِقیادت ٹیسٹ سیریز میں نیوزی لینڈ ہی کو چِت کیا تھا۔ حنیف نے لاہور میں سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں بغیر آؤٹ ہوئے 203 رنز کیے تھے۔ دلچسپ بات ہے کہ 25 برس بعد حنیف محمد کے بیٹے شعیب محمد نے نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں 203 رنز ناٹ آؤٹ بنائے۔ باپ کے نقش قدم پر چلنا اسی کو کہتے ہیں۔ اس سے پہلے شعیب محمد انڈیا کے خلاف لاہور میں ناقابلِ شکست 203 رنز بنا چکے تھے، یہ ان کے کیریئر کا بہترین اسکور ہے۔
اکتوبر کے مہینے سے محمد برادران اور پاکستان کرکٹ کا ایک اور تاریخی رشتہ نکلتا ہے۔ پاکستان نے 16 اکتوبر 1952 کو دلی میں انڈیا کے خلاف اپنی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تو اس میں حنیف محمد نے اپنے ملک کی طرف سے پہلی نصف سینچری بنائی تھی۔ اسی مہینے کی 26 تاریخ کو پاکستان نے لکھنؤ میں اپنا پہلا ٹیسٹ جیت کر تاریخ رقم کی تو حنیف محمد ٹیسٹ ٹیم کا حصہ تھے۔
محمد برادران میں حنیف محمد کو عظمت حاصل ہوئی اور باقی بھائیوں کے لیے ان کی شخصیت چیلنج بن گئی اور ان کے سائے سے نکل کر اپنا نام بنانے کے لیے انہیں خاصی تگ و دو کرنی پڑی۔
بڑے بھائی وزیر محمد کو حنیف محمد کے بھائی کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ اس کا انہوں نے کبھی برا نہیں مانا تھا کیونکہ وہ ان کے مرتبہ شناس تھے۔ سب سے چھوٹے صادق محمد کی دوہری مصیبت تھی۔ پہلے ایک لمبے عرصے تک حنیف محمد کا بھائی ہونا ان کی شناخت تھی پھر اس میں مشتاق محمد کا بھائی ہونا بھی شامل ہوگیا۔ انگریزی میں Annus mirabilis اس سال کو کہا جاتا ہے جو آپ کے لیے مبارک اور یادگار رہا ہو۔ صادق محمد کے لیے سنہ 1973 ایسا ہی ایک سال تھا جب وہ دورہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اپنی ٹیم کے ٹاپ اسکورر تھے۔ کاؤنٹی کرکٹ میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ سنہ 1976 کے وزڈن میں محمد برادران کے بارے میں باسل ایسٹر بروک نے اپنے عمدہ مضمون
The greatly-praised Hanif and his brothers
میں صادق محمد کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ سنہ 1973 میں ان کی کارکردگی کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکا کہ لوگوں نے انہیں حنیف محمد یا مشتاق محمد کے بھائی کی حیثیت سے متعارف کروانا بند کیا اور اپنی پہچان کا ذریعہ خود بننے میں انہیں 13 برس لگے۔
ایک معاملہ جس میں چھوٹے بھائی کو حنیف محمد پر برتری حاصل ہے وہ وزڈن کرکٹر آف دی ایئر کے حوالے سے ہے۔ مشتاق محمد نے سنہ 1963 میں سال کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں جگہ بنائی تھی۔ یہ وزڈن کا سینچری ایڈیشن تھا اس لیے یہ بات اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی۔ کارنامے پر کارنامہ یہ کہ وہ 19 سال کی عمر میں وزڈن کرکٹر آف دی ایئر قرار پائے اور اب تک یہ اعزاز اپنے نام کرنے والے سب سے کم عمر کرکٹر ہیں۔
حنیف محمد کو سنہ 1968 میں وزڈن کرکٹر آف دی ایئر قرار دیا گیا تو ان کی عمر 33 سال سے اوپر تھی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













