افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ بھارت کی خبریں سامنے آئیں تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارا خطہ اب مزید عدم استحکام کی طرف بڑھے گا۔
کتنا اچھا ہوتا کہ یہ اندازہ یا تجزیہ ناقص ٹھہرتا اور انڈیا افغانستان کے ساتھ مل کر کچھ ایسے اعلانات یا اقدامات کرتا جو نہ صرف افغانستان میں امن اور استحکام لے کر آتے بلکہ اس کے ساتھ پورے خطے اور بالخصوص انڈیا اور پاکستان کے اندر حالات بہتر ہوتے۔
لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا، اور جو ہوا، اس کے برعکس ہوا۔
متقی صاحب کے انڈین سرزمین پر قدم رنجہ ہوتے ہی افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں اور بارڈر پوسٹوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی گئی تاکہ ایک طرف انڈیا کو خوش کیا جائے اور دوسری طرف اس فائرنگ کی آڑ میں دہشتگرد پاکستان کے اندر داخل کئے جائیں۔
لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ پاکستانی حکام نے اس چال کو ناکام بنانے کے لیے بھرپور جوابی کاروائی کا فیصلہ کیا اور افغانستان کے اندر جا کر کابل اور قندھار میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
کشیدگی بڑھی تو دوست ممالک سعودی عرب، ترکیہ اور قطر کی مصالحانہ کوششوں پر پاکستان پہلے دوحا معاہدے کے تحت سیزفائر اور پھر 25 اکتوبر کے جامع مذاکرات پر رضامند ہو گیا۔
لیکن دوسری طرف افغانستان نے متقی صاحب کے وطن لوٹتے ہی انڈیا کی ایما پر پاکستان کے ایک بڑے علاقے کو سیراب کرنے والے دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کا اعلان کر دیا۔
یہی نہیں بلکہ سیز فائر کے باوجود دہشتگردوں کی سرپرستی جاری رکھی۔
پاکستان نے سیزفائر کے بعد دہشتگردی کے نئے واقعات کے باوجود کوئی ردعمل نہیں دیا اور ایک مثبت رویے کے ساتھ 25 اکتوبر کو شروع ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں گیا لیکن استنبول سے آخری خبریں آنے تک افغانستان کا وفد امن کے عمل کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے اور ابھی تک دہشتگردی کے ٹھکانوں کے خاتمے کی مکمل یاد دہانی کرانے سے منکر ہے۔
19 اکتوبر کے سیزفائر معاہدے اور 25 اکتوبر کے مذاکراتی دور کے درمیانی ہفتے میں ایک اور اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ افغانستان میں سابق امریکی سفیر پاکستان مخالف زلمے خلیل ذاد خصوصی طور پر کابل پہنچا اور وہاں اہم ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے نتائج استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں افغان طالبان کے نمائندوں کے عدم تعاون کی صورت میں سامنے آئے۔
اس تمام تر پیشرفت کے بعد یہ بات اب عیاں ہو گئی ہے کہ انڈیا اور اس کے حمایتی اب مکمل طور پر افغان دشمنی پر اتر آئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ افغان طالبان کی پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو بڑھا کر وہاں عدم استحکام میں اضافہ کریں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ انڈیا تو افغانستان کا دوست ہے اور اس کو پاکستان کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے ہر لحاظ سے اس کی مدد کر رہا ہے تو وہ افغانستان سے دشمنی کیسے کر سکتا ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ انڈیا افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال ضرور کرنا چاہ رہا ہے لیکن اس منصوبے کا سب سے بڑا نقصان افغانستان کو ہی ہونا ہے اور پاکستان اور انڈیا جیسے ہاتھیوں کی لڑائی میں پسنا افغانی چیونٹی نے ہے۔
اس وقت افغانستان میں 80 فیصد لڑکیاں اور ایک بڑی تعداد میں لڑکے تعلیم سے دور ہیں۔ افغانستان کی خورو نوش اور تعمیر و ترقی کا مکمل انحصار پاکستان پر ہے۔ آٹے، چینی سے لے کر کپڑوں حتیٰ کہ چین اور دوسرے ممالک سے آنے والی مشینری بھی پاکستان کے ذریعے ہی افغانستان پہنچتی ہے۔ یہی نہیں، پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت اور تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں افغان نوجوان برسرروزگار ہیں۔
ایسے میں اگر افغان طالبان انڈیا اور ذلمے خلیل ذاد جیسوں کے بہکاوے میں آ کر پاکستان کے خلاف کھلم کھلا جنگ کا حصہ بنتے ہیں تو ان کا ملک دوبارہ سے مکمل تباہی کی طرف دھکیلا جائے گا، جو تھوڑی بہت انفراسٹرکچر کی تعمیر شروع ہوئی ہے، وہ فوری ختم ہو جائے گی، بھوک، غربت اور بیماریاں نئی بلندیوں کو چھوئیں گی اور افغانستان پاکستان کا اعتماد ہمیشہ کے لیے کھو دے گا۔
انڈین یقینی طور پر افغان طالبان کو پاکستان کے متبادل تجارتی راستوں، بندرگاہوں اور ذرائع اشیائے خورونوش کے سبق پڑھا رہے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک کے ساتھ تجارت اور ٹرانزٹ روٹ کا استعمال نہ صرف افغانوں کو کئی گنا مہنگا پڑے گا بلکہ اس کے لیے اسٹرکچر بنانے میں ہی کئی دہائیاں لگ جائیں گی جو پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کے پس منظر میں مزید مشکل ہو جائے گا۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے بعد سستا ترین روٹ ایران میں انڈیا کی بنائی بندرگاہ چاہ بہار ہے۔ لیکن یہاں سے تجارت ایک تو پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا مہنگی اور طویل مشکل سفر پر مشتمل ہو گی دوسرا ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے باعث افغان طالبان وہاں سے ہر چیز منگوا بھی نہیں سکتے۔
اس کے علاوہ افغان طالبان رجیم وسطی ایشیائی ممالک ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے ذریعے بندرگاہوں تک رسائی حاصل کر سکتی ہے لیکن وہاں کی بندرگاہوں کے لیے رستے بناتے بناتے اس رجیم کے سپوت تو بوڑھے ہو جائیں گے۔
تو ہو گا کیا؟ افغان طالبان انڈیا کے لیے کرائے کے قاتل بن کر پاکستان پر حملے کریں گے، پاکستان جوابی کاروائی کرے گا اور افغان عوام ہر لمحے پستی، جہالت اور غربت کی مزید گہری دلدل میں دھنستے جائیں گے۔ انڈیا خوش ہو گا کہ پاکستانی فوج کو مصروف رکھا ہوا ہے، پاکستان اپنے وسائل، مہارت اور عزم کی بنیاد پر انڈیا اور اس کی پراکسیز کو دونوں محاذوں پر ناکوں چنے چبواتا رہے گا اور افغان عوام اس دشمنی کا چارہ بنتے رہیں گے۔
اس سارے کھیل میں انڈیا کی دشمنی پاکستان سے نہیں افغانستان کے عوام اور اس کی تعمیر و ترقی اور اس کے استحکام سے ہے۔
انڈیا افغانستان کا دشمن ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













