پاکستان میں موٹاپا تیزی سے پھیل رہا ہے، اور لوگ اس مسئلے سے شدید پریشان ہیں۔ کچھ سال پہلے تک یہ تصور تھا کہ موٹاپا صرف ترقی یافتہ ممالک کا مسئلہ ہے، لیکن آج ہمارے اپنے شہروں اور دیہات میں بھی وزن بڑھنے کی شکایات عام ہو چکی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ زندگی میں صحت مند سرگرمیاں قریباً ختم ہو گئی ہیں۔ بچپن سے نہ کھیل کود کا رجحان رہا اور نہ ہی ورزش کا۔ آج کے نوجوان زیادہ تر وقت موبائل فون، ویڈیوز اور آن لائن سرگرمیوں میں گزارتے ہیں، جس کی وجہ سے جسمانی حرکت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: کیا موٹاپا، ذیابیطس اور سگریٹ نوشی ڈیمنشیا کی وجہ بن سکتے ہیں؟
نیوٹریشنسٹ کے مطابق ہمارے کھانے پینے کے انداز نے بھی موٹاپے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلے لوگ دیسی کھانوں پر انحصار کرتے تھے، اب زیادہ تر پروسیس شدہ اور ہائبرڈ کھانے ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ فاسٹ فوڈ انڈسٹری تیزی سے پھیلی ہے، اور عوام کی دلچسپی بھی انہی کھانوں میں بڑھتی جا رہی ہے۔ چکنائی، چاول اور میٹھی چیزوں کا زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔
جِم ٹرینرز کے مطابق 18 سے 30 سال کے نوجوانوں میں موٹاپا سب سے زیادہ بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں، وہ نسبتاً صحت مند رہتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگ سستی اور وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر ورزش سے گریز کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:موٹاپا اور شوگر کا خطرہ، چاول پکانے سے پہلے ضرور کریں یہ کام
کچھ لوگ آن لائن شاپنگ اور فوڈ ڈیلیوری کے عادی ہو گئے ہیں۔ گھر سے باہر نکلنے کے بجائے سب کچھ آن لائن منگوا کر کھا لیتے ہیں، جس سے جسمانی ایکٹیویٹی مزید کم ہو جاتی ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہی طرزِ زندگی ذیابیطس، بلڈ پریشر اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل کو بھی بڑھا رہا ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق موٹاپا خود ایک بیماری نہیں بلکہ کئی بیماریوں کی جڑ ہے۔ اگر ہم اپنی خوراک اور طرزِ زندگی میں معمولی تبدیلیاں لے آئیں تو اس خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ جسمانی سرگرمی ضرور کریں۔ یہ آپ کے دن کا صرف 4 فیصد حصہ بنتا ہے، لیکن یہی معمول آپ کی زندگی بدل سکتا ہے۔













