چین میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ترقی اور اختراع کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے جہاں لاکھوں نئے ماہرین، طلبہ اور شوقیہ ڈویلپرز اس انقلابی ٹیکنالوجی کا حصہ بن رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چین مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکا کو پچھاڑنے کے لیے کوشاں
مشرقی چین کے صوبے آنہوئی کے دارالحکومت ہفی میں منعقدہ 8ویں ورلڈ وائس ایکسپو میں ایک خوش گفتار روبوٹ ’شیاؤلی‘ نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔
یہ روبوٹ بزرگ شہریوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو بلڈ پریشر چیک کرنے، گرنے کی صورت میں خودکار اطلاع دینے اور دوا لینے کی یاد دہانی کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بیجنگ کی سی لنک ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ نے یہ روبوٹ تیار کیا ہے جو اس وقت ملک کے درجنوں نرسنگ ہومز میں آزمائشی طور پر کام کر رہا ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ مزید اپ گریڈ کے بعد ’شیاؤلی‘ کو عام گھروں میں بھی متعارف کرایا جائے گا۔
ٹیکنیکل ڈائریکٹر سی لنک ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ ہونگ زے کے مطابق چین کے مضبوط ڈویلپر ایکو سسٹم اور کھلے پلیٹ فارمز کی بدولت اب ہم مختلف صنعتوں کے لیے ذہین ایپلی کیشنز تیزی سے اور کم لاگت میں تیار کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: کیا چینی ایپ ڈیپ سیک مصنوعی ذہانت کی دنیا میں انقلاب ہے؟
چین کا اے آئی انڈسٹری 900 ارب یوآن سے تجاوز کر گئی
چائنا اکیڈمی آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنز ٹیکنالوجی کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2024 میں چین کی مصنوعی ذہانت کی صنعت کا حجم 900 ارب یوآن (127 ارب امریکی ڈالر) سے زیادہ ہو گیا تھا جو اس حجم میں ہرسال 24 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
یہ ترقی بڑی حد تک ملک بھر میں تیزی سے پھیلتی اور متنوع ہوتی ڈویلپر کمیونٹی کی مرہون منت ہے۔
چین کے معروف اے آئی پلیٹ فارم آئی فلائی ٹیک اوپن پلیٹ فارم کے مطابق اکتوبر 2024 تک 95 لاکھ سے زائد ڈویلپر ٹیمیں اس پلیٹ فارم پر رجسٹر ہو چکی ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 23 فیصد زیادہ ہے۔
ان ٹیموں نے مجموعی طور پر 36 لاکھ سے زائد اے آئی ایپلی کیشنز تخلیق کی ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا ہم خبروں کے حوالے سے مصنوعی ذہانت پر اعتبار کرسکتے ہیں؟
آئی فلائی ٹیک کے چیئرمین لیو چنگ فینگ کے بقول پہلے 20 لاکھ ڈویلپرز تک پہنچنے میں ہمیں 11 سال لگے لیکن اب ہر سال تقریباً اتنی ہی نئی ٹیمیں شامل ہو رہی ہیں اور لاکھوں نوجوان ڈویلپرز اے آئی کو روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں ضم کر رہے ہیں۔
نئی نسل، خواتین اور غیر تکنیکی ماہرین کی بڑھتی شمولیت
ایک وقت میں یہ شعبہ چند ماہرین تک محدود تھا مگر اب اس میں طلبہ، ہوبی رکھنے والے عام شہریوں اور غیر تکنیکی پس منظر سے آنے والے افراد کی بڑی تعداد شامل ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت کی دنیا میں چین امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے قریب پہنچ گیا
خواتین ڈویلپرز اور نان پروگرامرز کی شمولیت میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
زیہو اور علی بابا کے اوپن ماڈل کمیونٹی ماڈل اسکوپ کے ایک وائٹ پیپر کے مطابق چین کے اے آئی ورکرز میں 28 سے 32 سال عمر کے افراد کا حصہ 28 فیصد ہے جبکہ 23 سے 27 سال کے افراد 20 فیصد ہیں جو اس شعبے کی نوجوان توانائی کو ظاہر کرتا ہے۔
طلبہ اور اساتذہ سے لے کر بصارت سے محروم ڈویلپرز تک
گوانگ ڈونگ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے گریجویٹ طالب علم سو شیانگ بیاو نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک اے آئی ٹول تیار کیا ہے جو ویڈیو گیمز کے سب ٹائٹلز کو ریئل ٹائم میں ترجمہ کرتا ہے اور کھلاڑی کی انگریزی مہارت کے مطابق ذاتی نوعیت کا لرننگ مواد تیار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اوپن سورس کمیونٹیز کے ذریعے اپنی مہارت بڑھاتا ہوں جہاں مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔
صوبہ آنہوئی میں 40 سے زائد یونیورسٹیوں میں 500 سے زیادہ اے آئی پروگرامز متعارف کرائے جا چکے ہیں جبکہ بیجنگ کی 38 یونیورسٹیوں میں بھی عمومی اے آئی کورسز شروع کیے گئے ہیں۔
’ٹیکنالوجی برائے بھلائی‘: بصارت سے محروم افراد کی ’آنکھیں‘
بصارت سے محروم ڈویلپر کاؤ جن نے 2018 میں اے آئی پر مبنی اسکرین ریڈنگ سافٹ ویئر تیار کیا جو موبائل اور کمپیوٹر کے مواد کو آواز کے ذریعے بیان کرتا ہے۔
ان کے مطابق ہمارا سافٹ ویئر 4 لاکھ سے زائد بصارت سے محروم صارفین کو سہولت فراہم کر رہا ہے اور اب وہ تصویر کھینچتے ہیں تو فون اس کا تجزیہ کر کے خود بیان کرتا ہے کہ اس میں کیا ہے۔
کاؤ جن کی کمپنی میں اب 40 سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں سے 70 فیصد خود بصارت سے محروم ہیں۔
مزید پڑھیں: چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت نے ہمیں ایک نئی آنکھ عطا کی ہے اور یہ ہمیں معاشرے میں شامل ہونے، نئے امکانات تک پہنچنے اور ’ٹیکنالوجی برائے بھلائی‘ کے خواب کو سچ کرنے میں مدد دے رہی ہے۔














