بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی مشاورتی کونسل نے 2025 کے لیے ’جبری گمشدگی کی روک تھام، علاج اور تحفظ‘ کے مسودے کی حتمی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت اغوا یا جبری گمشدگی کے مرتکب افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا موت ہوگی۔
چیف ایڈوائزر پروفیسر یونس کے پریس سیکریٹری شفیق العالم نے جمعرات کو فارن سروس اکیڈمی ڈھاکہ میں مشاورتی کونسل کے اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا۔ اجلاس کی صدارت چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کی۔
مزید پڑھیں: پولیس اصلاحات: آئرلینڈ کی بنگلہ دیش کو معاونت فراہم کرنے کی پیشکش
پریس سیکریٹری کے مطابق یہ آرڈیننس متاثرین کے لیے انصاف یقینی بنانے اور جبری گمشدگی کے خلاف سخت قانونی فریم ورک قائم کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جس پر طویل عرصے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے۔
مسودے کو پہلے پالیسی کی منظوری حاصل تھی، تاہم کونسل کے حالیہ اجلاس میں اسے باضابطہ نفاذ کے لیے حتمی شکل دی گئی ہے۔
تجویز کردہ قانون میں جرم کے مرتکب افراد کے لیے موت کی سزا اور معاونین یا سہولت فراہم کرنے والوں کے لیے سخت قید کی سزائیں شامل ہیں۔
یہ اقدام حکومت کے اس حالیہ فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے لیے علیحدہ کمیشن قائم نہ کیا جائے بلکہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے دائرہ کار میں ان معاملات کی تحقیقات شامل کی جائیں۔
سرکاری حکام کے مطابق یہ نیا قانونی فریم ورک عبوری مدت کے دوران قانون کی بالادستی اور جوابدہی کو مضبوط بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے، جس کے بعد قومی انتخابات ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پروفیسر یونس کے روڈ میپ کی حمایت کرتے ہیں، نئے انتخابات کے بعد استحکام آئےگا، بنگلہ دیشی فوج
رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش میں حالیہ برسوں میں 1900 سے زیادہ جبری گمشدگیوں کی شکایات موصول ہو چکی ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ نئے آرڈیننس کے ذریعے ذمہ دار افراد کو سب سے اعلیٰ سطح کے انصاف کے تقاضوں کے مطابق سزا دی جائے گی۔














