ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا ہے کہ پاکستان نے کسی دوسرے ملک کے خفیہ ادارے سے ملاقات یا کسی قسم کا لین دین نہیں کیا۔ بھارتی میڈیا کی بے بنیاد خبریں من گھڑت اور پروپیگنڈے پر مبنی ہیں۔ پاکستان نے غزہ فوج کے بدلے رقم مانگنے کے الزامات کو بھی یکسر مسترد کر دیا ہے۔
ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات اس وقت استنبول میں جاری ہیں اور ان میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں۔ پاکستان کا بنیادی مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے ہونے والے دہشتگرد حملوں میں معصوم شہری نشانہ بن رہے ہیں، جبکہ پاکستان اپنے عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف آذربائیجان کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ باکو میں یومِ فتح کی تقریبات میں شریک ہوں گے۔
مزید پڑھیں: استنبول مذاکرات کے دوران افغانستان کی چمن سرحد پر فائرنگ، پاک فوج کا منہ توڑ جواب
ان کا کہنا تھا کہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے ترکیہ میں مسلم ممالک کے اجلاس میں شرکت کی، جس میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی گئی۔ اجلاس کے دوران اسحاق ڈار نے پاکستان کے فلسطین سے متعلق مؤقف کا اعادہ کیا اور ترکیہ کے وزیر خارجہ سمیت عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔
ترجمان نے بتایا کہ پاکستان نے بھارت سے آنے والے 2400 ہندو یاتریوں کو ویزے جاری کیے ہیں۔ چند یاتری نامکمل دستاویزات کے باعث واپس کیے گئے جنہیں کاغذات مکمل ہونے پر ویزے فراہم کر دیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 4 نومبر کو بابا گُرو نانک کی تقریبات میں 1900 سے زائد بھارتی یاتری پاکستان میں داخل ہوئے، جن میں اکثریت سکھ عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔
ترجمان نے شمالی افغانستان میں آنے والے زلزلے پر افسوس اور متاثرین سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔
مزید پڑھیں: پاکستان، افغانستان مذاکرات کا نیا دور آج استنبول میں، پاکستان کامیابی کے لیے پُرامید
انہوں نے بھارتی میڈیا کی افواہوں کو ’پریوں کی کہانیاں‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وفد نے استنبول مذاکرات میں ثالثوں کو مصدقہ اور شواہد پر مبنی معلومات فراہم کی ہیں۔ پاکستان کے تمام مطالبات واضح اور منطقی ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے زور دیا کہ پاک فضائیہ کی بہادری تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ پاکستان کو اپنی فضائیہ پر فخر ہے جس نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو شکست دی۔ بھارت نے امریکی صدر سے جنگ بندی کی درخواست کی تھی جبکہ امریکی صدر کا مؤقف خطے کے امن کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت قوم کے تحفظ کے لیے متحد ہے اور فوجی کامیابیوں پر قوم کو اعتماد دلانے والا موقف برقرار رکھا جائے گا۔












