گھڑی، اس کے بارہ ہندسے اور ان ہندسوں کے بیچ سوئی۔ جس کا کام گھومنا ہوتا ہے اور جس کا گھومنا ایک معنی رکھتا ہے۔ اگر گھڑی کی سوئی رُک جائے یا روک دی جائے تو وقت کو اپنے حساب سے گھمایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی اہمیت نہیں ہوتی۔
ایسا ہی ہماری سیاست میں ہوتا ہے۔ تمام کردار پلک جھپکنے سے پہلے بارہ کے ہندسے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ اور اگر نہ پہنچ سکیں تو چاہتے ہیں کہ گھڑی کی سوئیاں روک دی جائیں۔
ایسے ہی ایک گھڑی کی سوئیاں اس وقت روکی گئیں جب سب ٹھیک چل رہا تھا۔ ہندسوں کی ترتیب الٹی گئی اور نواز شریف کوکھیل سے آؤٹ کرکے عمران خان کے لیےمیدان کو ہر طرف سے خالی چھوڑا گیا۔ تمام من پسند کھلاڑی اکٹھے کر کے انہیں دیے گئے تاکہ وہ بہترین ٹیم تیار کرسکیں۔ پلک جھپکتے ترقی کا سورج نصف النہار پر لے جائیں گے اور دنیا میں سبز پاسپورٹ کو ایسا احترام ملے گا کہ ایئر پورٹس پر ملازمتیں لینے کے لیے آنے والوں کی قطاریں ہوں گی۔
لیکن سب خواہشات کے برعکس ہوا۔ معیشت کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے کے دعوے بری طرح ناکام ہوگئے۔ اقتصادی ماہرین کے ساتھ ساتھ تمام بازیاں پلٹنے والے بھی بوکھلا گئے کہ گھڑی کی سوئیاں روکنے کا انجام ہمیں انجام سے دوچار تو نہیں کرنے جارہا۔
عمران خان نے لاکھ کوشش کی کہ گھڑی کی سوئیاں ان کے حق میں چلتی رہیں اور اس کے لیے وہ ”کمپنی“ کے کچھ ”ماہر“ گھڑی سازوں کو بھی شیشے میں اُتارنے میں کامیاب رہے۔ لیکن آخر ”کمپنی“ کی اجازت کے بغیر کیسے اور کب تک؟ پھر جب دیوار کی گھڑی اور کلائی کی گھڑی میں فرق آجائے تو کسی ایک سے متعلق سوچنا پڑجاتا ہے اور عمران خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
لیکن عمران خان کا خیال تھا کہ میرے اندر یہ صلاحیت ہے کہ گھڑی کی سوئیوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلاؤں۔ انہوں نے اس کے لیے ہر حد پھلانگنے کی بھی کوشش کی۔ ”کمپنی“ نے یہ بے جا خواہشات دیکھ کر سوئیوں کو اپنی اصل حالت پر لانے کی کوشش کی تاکہ حالات کو مزید بگاڑ سے روکا جاسکے۔ جہاں سے گھڑی کی سوئیاں روکی گئی تھیں، وہاں واپس لے گئی۔
عمران خان کی جگہ انہی جماعتوں کو تخت پر لا کر بٹھایا گیا جن کو پہلے ملزم قرار دے کر اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا۔ تاکہ وہ بگاڑے گئے حالات کو کنٹرول میں لا سکیں۔ پھر گھڑی واپس ایک کے ہندسے سے چلا کربہترین نتائج کی توقع کی گئی، لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ بہت دیر ہوچکی تھی۔
بھرپور سیاسی مہم اور ملک گیر جلسوں کے نتیجے میں شاید ’چابی والی گھڑی‘ کی جگہ عمران خان کو پھر ’وقت‘ دے دیا جاتا کیونکہ اپنے تراشے بتوں کو توڑنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن ’غدار، جانور، میر جعفر اور ڈرٹی ہیری‘ کی ٹک ٹک نے کمپنی کو آنے والے وقت سے ڈرا دیا، ادھر عمران خان کو بھی اس کا ادراک نہ ہوا۔ پھر جو کچھ 9 مئی کو ہوا اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی، اور اب سیاست کی ریت عمران خان کی بند مٹھی سے تیزی سے گرتی جا رہی ہے۔ اپنی ہی پارٹی کے اندر سے ’مذمتی‘ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ کچھ کبوتر اڑ گئے کچھ نئی ’اٹاری‘ کی تلاش میں پر تول رہے ہیں۔
جس طرح سردیوں کی طویل اور خاموش راتوں میں کبھی کبھی گھڑی کی ٹک ٹک نیندیں اُڑادیتی ہے۔ اسی طرح عمران خان کی نیندیں بھی اڑی ہوئی ہیں، اب وہ مذاکرات کے لیے کوشاں ہیں اور9 مئی کے واقعات میں ملوث اپنے ہی کارکنوں کوپہچاننے سے انکاری۔ جنہوں نے اپنا سب کچھ تج دیا، انہیں ”ایجنسی“ کے لوگ قرار دے دیا۔ ہزارہا کوششوں کے باوجود جس طرح پُرسکون رات میں گھڑی کی ٹک ٹک ایسی جان کو آجاتی ہے کہ کانوں میں اُنگلیاں دے کر بھی جان نہیں چھوٹ پاتی۔ اسی طرح عمران خان بھی اس سارے معاملے سے دستبردار ہوکر پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔
جیسے گھڑی کی ٹک ٹک خاموش کرنے کا ایک واحد حل یہی ہوتا ہے کہ اس کے سیل نکال دیے جائیں۔ بالکل اسی طرح کمپنی نے فیصلہ کرلیا ہے کہ خراب گھڑی کی سوئیاں آگے پیچھے کرنے کے بجائے اس کے سیل ہی نکال دیے جائیں۔ اب گھڑی کے سیل نکالے جارہے ہیں اور عمران خان کی جھولی میں ڈالے گئے تما م کردار اپنے مدار کی جانب واپس جارہے ہیں۔
لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح گھڑی کی سوئیاں گھمانے سے وقت کی واپسی نہیں ہوتی، اسی طرح سیاستدانوں کے لیے’اقتدار کی کرسی‘ میں بھی واپسی اتنی ہی مشکل ہوتی ہے۔ پہلے ان کو خاموش اور پھر اعلانیہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ایک سمت میں چلا جائے ور نہ مخالف سمت میں جانے والوں کی گھڑی کی سوئیاں روکنے کی طاقت بھی ہے۔ ان کو پیغام دیا جاتا ہے کہ تخلیقی بن کر تخلیق کاروں سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کی جائے ورنہ سیل نکالنے آتے ہیں۔
اس کی مثالیں نواز شریف اور پھر عمران خان کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ گھڑی کی سوئیاں روک کر پرانے کرداروں پر مشتمل نئی کہانیاں بنانے میں تو ہم ماہر ہیں۔ پہلے گھڑی کی سوئیاں آگے کرکے نواز شریف کو نا اہل کیا گیا اب پیچھے کر کے نا اہلی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گھڑی تبدیل کرنی پڑے یا اس کی سوئیوں کو آگے پیچھے کرکے وقت بدلنا پڑے وہ اس میں لمحہ نہیں لگاتے۔
کاش وہ یہ بھی سمجھ سکیں کہ گھڑی کے درست سمت میں چلتے رہنے میں ہی سب کی عافیت ہے، ایک سمت میں چلتی ہوئی گھڑی کو روکنا، ہندسے آگے پیچھے کرنے یا سیل نکالنے سے گھڑی تو ناکارہ ہو ہی جاتی ہے لیکن سوئیاں روکنے والےبھی اکثروقت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ سیاسی گھڑیوں کی سوئیاں روکنے سے ملک کی ترقی کا پہیہ بھی رک جاتا ہے۔ اس لیے گھڑی کی سمت درست کر کے بارہ کے ہندسے پرپہنچنے دینا چاہیے۔ بار بار ہندسے تبدیل کرنے سے گھڑیاں تو ناکارہ ہوں گی ہی، گھڑیاں تبدیل کرنے والے بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔