قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا مشترکہ اجلاس آج پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں 27 ویں آئینی ترمیم کے بل 2025 پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں صدر کے بعد وزیراعظم کو بھی فوجداری مقدمات سے استثنیٰ دینے کی ترمیم پیش کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ کس کو تفویض کیا جائیگا؟ 27ویں آئینی ترمیم کامسودہ سامنے آگیا
اجلاس کی مشترکہ صدارت قومی اسمبلی کے چیئرمین چوہدری محمود بشیر ورک اور سینٹ کے چیئرمین فروق حمید نئک نے کی۔ ترمیم حکومتی ارکان سینیٹر انوشے رحمان اور سینیٹر ظاہر خلیل ساندھو نے پیش کی، جس کے تحت آرٹیکل 248 میں صدر کے ساتھ لفظ ’وزیراعظم‘ بھی شامل کیا جائے گا۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم کے خلاف فوجداری مقدمات کے تحت کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔

پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کی تجاویز حکومت نے منظور کر لی ہیں، تاہم ایم کیو ایم کی ترامیم پر مشاورت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر نئی ترامیم نہیں لانی چاہئیں اور طے شدہ ترامیم پر بات ہونی چاہیے۔
اجلاس کے دوران سینٹر کامران مرتضیٰ اور رکن قومی اسمبلی علیا کامران نے اپنے سیاسی جماعت کو مشاورت کے عمل میں شامل نہ کیے جانے پر واک آؤٹ کیا۔ علیا کامران نے اجلاس میں کچھ وقت شرکت بھی کی اور مباحثے میں حصہ لیا۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے
اجلاس میں دیگر ارکان نے ملکی قانونی نظام کی بہتری اور عدالتی اصلاحات کے حوالے سے تجاویز پیش کیں جبکہ بل کی شق بہ شق جانچ پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ بل پر مزید غور کے لیے اجلاس کل صبح دوبارہ منعقد کیا جائے گا۔
ججز کی تقرری سمیت اہم نکات پر پیش رفت
فاروق ایچ نائیک کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے 80 فیصد نکات پر مشاورت مکمل ہوچکی ہے اور باقی 20 فیصد معاملات اتوار تک حل کر لیے جائیں گے۔ ججز کی تقرری سے متعلق آرٹیکل 175 تک بھی مشاورت مکمل ہوچکی ہے اور امید ہے کہ اتفاق رائے کے ساتھ قانون سازی ہوگی۔
اتفاق رائے تک مشاورت جاری رہے گی
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 27ویں ترمیم پر 100 فیصد اتفاق رائے تک مشاورت جاری رہے گی اور تمام سیاسی جماعتوں کو قائمہ کمیٹی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آج تمام اراکین نے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھا، کچھ سوالات بھی اٹھائے گئے، اور مسودہ اپوزیشن کو دیا جا چکا ہے تاکہ وہ اپنی رائے دے سکیں۔
وزیر قانون نے واضح کیا کہ کسی قسم کی “میں نہ مانوں” کی پوزیشن نامناسب ہوگی اور سب جماعتیں تعاون کے ساتھ قانون سازی میں حصہ لیں۔












