بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات، کیا یہ عوام کے لیے واقعی مفید ثابت ہوئے؟

جمعہ 21 نومبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان میں 29 مئی 2022 کو مرحلہ وار ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو عوامی نمائندگی کے مضبوط ترین ذریعہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ صوبے کے 35 اضلاع میں یہ انتخابات بڑی توقعات کے ساتھ منعقد ہوئے اور لوگوں نے امید ظاہر کی کہ مقامی نمائندوں کے ذریعے ان کے مسائل اب گھر کی دہلیز پر حل ہوں گے۔

تاہم 2 سال گزرنے کے باوجود اکثر علاقوں میں عوام اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جبکہ منتخب چیئرمین اور کونسلرز اختیارات اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے شدید مایوسی کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں 12 سال بعد بلدیاتی انتخابات، کیا عوام کو حکمرانوں کے قریب لا پائیں گے؟

صوبے کے مختلف حصوں میں عوام سے بات کرنے پر یہ حقیقت سامنے آئی کہ بلدیاتی انتخابات نے نمائندگی تو دی، مگر مسائل کے حل میں بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی۔

مستونگ کے رہائشی محمد احمد نے بتایا کہ علاقے میں پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات کا شدید بحران ہے۔ بلدیاتی نمائندے موجود ہیں، لیکن ان کے پاس وسائل ہی نہیں۔ نہ سڑکیں بنی ہیں، نہ صفائی کا نظام بہتر ہوا ہے، اور نہ ہی پینے کا صاف پانی ملتا ہے۔ لوگ آج بھی وہی مسائل بھگت رہے ہیں جو انتخابات سے پہلے تھے۔

اسی طرح صوبے کے بیشتر اضلاع کی عوام کا موقف ہے کہ ہم بلدیاتی نمائندوں تک روزانہ رسائی رکھتے ہیں۔ وہ ہمارے درمیان موجود رہتے ہیں، لیکن جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ہمارے کام کیوں نہیں ہو رہے تو وہ فنڈز نہ ملنے کا رونا روتے ہیں۔

بلدیاتی نمائندوں کا مؤقف بھی عوام کی شکایات کی بھرپور تائید کرتا ہے۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے مستونگ کے چیئرمین میونسپل کمیٹی ڈاکٹر فیصل منان نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010 کے مطابق چیئرمینز، وائس چیئرمینز اور یوسی چیئرمینز کو مکمل اختیارات اور تنخواہیں ملنی چاہیے تھیں، مگر بلوچستان میں نہ وہ اختیارات دیے گئے، نہ تنخواہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر منتخب نمائندوں کو مراعات، تنخواہیں، گاڑیاں، سیکیورٹی سب کچھ دیا جاتا ہے، لیکن لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ جبکہ ایکٹ کے آرٹیکل 35 میں صاف لکھا ہے کہ لوکل نمائندوں کو تنخواہیں اور مراعات دی جائیں گی، مگر 2022 سے آج تک اس قانون پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔

ڈاکٹر فیصل منان نے بتایا کہ 28 فروری 2024 کو لوکل گورنمنٹ کانفرنس کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے وعدہ کیا تھا کہ چیئرمینز کو ایم پی ایز کی تنخواہ کا 50 فیصد دیا جائے گا، اور ساتھ گاڑیاں، فیول اور سیکیورٹی بھی فراہم کی جائیں گی، لیکن یہ اعلان بھی محض اعلان ہی ثابت ہوا۔

ان کے مطابق لوکل باڈیز کو ترقیاتی فنڈز دینے کے بجائے تمام اسکیمیں اب بھی ایم پی ایز کی مرضی سے پی ایس ڈی پی میں شامل کی جاتی ہیں، جبکہ دنیا بھر میں ترقیاتی کام مقامی حکومتیں کرتی ہیں کیونکہ وہ عوام کے قریب ہوتی ہیں۔ اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے چیئرمین ڈی سی یا اے سی کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔ اگر اختیار نہ ہو تو نمائندہ اپنے علاقے کا مسئلہ کیسے حل کرے؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوکل نمائندے اپنے علاقے میں 24 گھنٹے موجود رہتے ہیں، جبکہ ایم این ایز یا ایم پی ایز شاذ و نادر ہی اپنے حلقے کا رخ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل کا حل مقامی حکومتوں کے پاس ہی ہونا چاہیے۔

صوبے میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کے لیے تیاریاں جاری ہیں، مگر عوام اور منتخب نمائندے دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اختیارات، فنڈز اور تنخواہیں نہ ملیں، تو بلدیاتی ادارے کبھی بھی فعال نہیں ہوسکتے اور عوام کو حقیقی فائدہ کبھی نہیں پہنچ سکے گا۔ مقامی حکومت کے بغیر نہ ترقی ممکن ہے اور نہ ہی مسائل کا پائیدار حل۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

فلپائن میں سابق میئر ’ایلس گو‘ کو انسانی اسمگلنگ پر عمرقید

آج ورلڈ ہیلو ڈے، لوگ یہ دن کیوں منانا شروع ہوگئے؟

یورپی خدشات کے باوجود یوکرین کا امریکی امن منصوبے پر آمادگی کا اظہار

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟

انقلاب، ایران اور پاکستان