وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی سطح پر تجارتی اختلافات، غذائی عدم تحفظ، مہنگائی، معاشی ناہمواریاں، توانائی کی فراہمی میں خلل اور ماحولیاتی منفی اثرات نے صورتحال مزید پیچیدہ کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اے آئی سے چلنے والی تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجیز نئے مواقع بھی پیدا کر رہی ہیں اور بڑے خدشات بھی، جبکہ اس کے مقابلے میں عالمی برادری کی مشترکہ صلاحیت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ کثیرالجہتی نظام دباؤ کا شکار ہے جبکہ بین الاقوامی ڈھانچہ مزید ٹکڑوں میں بٹ رہا ہے۔ ایسے حالات میں عالمی قیادت اور مکالمے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بڑی طاقتوں کی محاذ آرائی اور تقسیم پر مبنی سیاست کسی بھی طرح قابلِ عمل نہیں۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مشترکہ اقدام ناگزیر ہے۔ پاکستان کا سیکیورٹی وژن اختلافات کو کم کرنے، ہم آہنگی بڑھانے، رابطہ سازی پر زور دینے اور پرامن حل کے اصولوں پر مبنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار کی روسی ہم منصب سے ملاقات، دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے جولائی میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی صدارت کے دوران متفقہ طور پر قرارداد 2788 منظور کروائی، جس کا مقصد تنازعات کے پرامن حل کے نظام کو مضبوط بنانا ہے۔
ڈیپیوٹی وزیراعظم نے کہا کہ ایشیا پیسیفک کو اسٹریٹیجک مقابلے کے میدان میں تبدیل کرنا غلط بات ہے۔ انڈو پیسیفک جیسے تصورات اس خطے کی تاریخ، جغرافیہ اور ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق علاقائی تعاون کی بنیاد شمولیت ہونی چاہیے، خارجیت نہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ حالیہ دنوں میں خطے میں جارحیت پر مبنی اقدامات نے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان نے یورپی یونین اور دیگر شراکت داروں کے مثبت کردار کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں بعض عناصر اشتعال انگیز بیانات، جنگی نفسیات اور یکطرفہ اقدامات کے ذریعے تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام کو غیرقانونی، یکطرفہ اور علاقائی امن کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پانی تعاون کا ذریعہ ہونا چاہیے، سیاست کا ہتھیار نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خطے میں حقیقی اقتصادی روابط قائم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اسحاق ڈار کا ماسکو میں خطاب
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کشمیر کے پرامن حل کے بغیر ممکن نہیں۔ کشمیری عوام کی خواہشات اور یو این سیکیورٹی کونسل کی قراردادیں اس مسئلے کی بنیادی رہنما اصول ہیں۔
افغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم، دوستانہ اور منسلک افغانستان چاہتا ہے۔ انہوں نے افغان طالبان انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کرے۔
مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ میں جاری مظالم فوری طور پر ختم ہونے چاہئیں اور فلسطینی علاقوں کا غیرقانونی قبضہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ پاکستان نے شرم الشیخ میں ہونے والے امن معاہدے کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ حالیہ یو این سیکیورٹی کونسل کی قرارداد سے جنگ کا مستقل خاتمہ، اسرائیلی انخلا، امدادی رسائی اور غزہ کی بحالی کے عمل کو تقویت ملے گی۔ پاکستان کی پالیسی ایک قابلِ اعتماد، وقت مقررہ سیاسی عمل پر مبنی ہے، جس کا مقصد سن 1967 سے قبل کی سرحدوں پر ایک آزاد، خودمختار اور قابلِ عمل فلسطینی ریاست کا قیام ہے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار سے امریکی ناظم الامور کی ملاقات، غزہ سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال
یوکرین جنگ پر انہوں نے کہا کہ اس تنازع نے توانائی اور خوراک کی عالمی منڈیوں کو شدید متاثر کیا ہے، اور پاکستان اس مسئلے کے پرامن حل کی حمایت کرتا ہے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپی یونین کا تعاون کا ماڈل دنیا کیلئے سبق رکھتا ہے۔ پاکستان کی جیو اکنامک حکمت عملی بھی اسی نظریے پر قائم ہے، جس کے تحت پاکستان کو ایشیا و یورپ کے درمیان تجارتی و توانائی رابطوں کا مرکزی مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے چین پاکستان اکنامک کوریڈور اور یورپی یونین کے گلوبل گیٹ وے کے درمیان تعاون کو خطے کے سبز، ڈیجیٹل اور ٹرانسپورٹ رابطوں کیلئے انتہائی اہم قرار دیا۔














